قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ إِنْكَاحِ الرَّجُلِ وَلَدَهُ الصِّغَارَ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ} [الطلاق: 4] «فَجَعَلَ عِدَّتَهَا ثَلاَثَةَ أَشْهُرٍ قَبْلَ البُلُوغِ»

5133. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا وَهِيَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ وَأُدْخِلَتْ عَلَيْهِ وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ وَمَكَثَتْ عِنْدَهُ تِسْعًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ نے (سورۃ الطلاق میں) فرمایا «واللائي لم يحضن‏» یعنی جن عورتوں کو ابھی حیض نہ آیا ہو ان کی بھی عدت تین مہینے ہے۔تشریح:حضرت امام بخاری کا یہ عمدہ استنباط ہے کیونکہ تین مہینے کی مدت بغیر طلاق کے نہیں ہوتی اور طلاق بغیر نکاح کے نہیں ہو سکتی پس معلوم ہوا کہ کم سن اور نابالغ لڑکیوں کا نکاح کردینا درست ہے مگر اس آیت میں یہ تخصیص نہیں کہ باپ ہی کو ایسا کرنا جائز ہے اور نہ کنواری کی تخصیص ہے اہلحدیث اور محققین نے اس کو اختیار کیا ہے کہ جب لڑکی بالغہ ہو خواہ کنواری ہو یا بیوہ اس کا اذن لینا ضروری ہے اور کنواری کا خاموش رہنا ہی اذن ہے اور ثیبہ کو زبان سے اذن دینا چاہیے ایک حدیث میں ہے کہ ایک کنواری لڑکی آنحضرت ﷺ کے پاس آئی اس کے باپ نے اس کا نکاح جبراً کر دیا تھا وہ پسند نہیں کرتی تھی تو آنحضرتﷺ نے لڑکی کو اختیار دیا خواہ نکاح باقی رکھے خواہ فسخ کر ڈالے(وحیدی)

5133.

سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت کہ نبی ﷺ نے ان سے نکاح فرمایا جبکہ وہ چھ برس کی تھیں اور ان کی رخصتی ہوئی وہ نو برس کی تھیں اور وہ آپ کے پاس نو برس رہیں۔