تشریح:
(1) ابن بطال نے کہا ہے کہ تمام اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا سرپرست حاکم وقت ہے، نیز جب لڑکی اپنا ہم پلہ پائے اور اس کا سر پرست نکاح نہ کرے تو حاکم وقت اس کا سرپرست ہوگا، چنانچہ وہ اس کا نکاح کر دےگا۔ (عمدة القاري: 88/14) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے اور حاکم وقت ہر اس عورت کا ولی ہے جس کا کوئی سرپرست نہ ہو۔‘‘ (جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1101) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبرانی کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث پیش کی ہے جس کے الفاظ یہ ہین: ’’خیر خواہ سرپرست یا حاکم وقت کےبغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني: 318/1، رقم: 525، و إرواء الغلیل: 239/6)
(2) ہمارے رجحان کے مطابق اگر حاکم وقت تک عورت کی رسائی نہ ہوسکے تو گاؤں کے معزز آدمی پنچایت کے طور پر اس کی سرپرستی کریں اور اس عورت کا نکاح کر دیں۔ والله اعلم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دور میں حاکم وقت بھی تھے، اس لیے آپ نے اس عورت کا نکاح ایک مفلس اور نادار سے کر دیا۔ جن احادیث میں حاکم وقت کی سرپرستی کی صراحت ہے وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق نہ تھیں، اس لیے اس حدیث سے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري: 239/9)