تشریح:
پیش کردہ روایات میں اختصار ہے، چنانچہ امام بخاری ؒ نے قبل ازیں علی بن مسہر کے طریق سے بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کے ہاں ذکر ہوا کہ کون سی چیزیں نماز کی قاطع ہیں؟ تو لوگوں نے کہا:کتا، گدھا اور عورت، اس کے بعد آپ نے مذکورہ جواب دیا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1142 (512)) صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے خود سوال کیا کہ نماز کوکون سی چیز توڑتی ہے؟ تو حضرت عروہ بن زبیر نے جواب دیا: عورت اور گدھا۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1137(510)) ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: اے اہل عراق! تم نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کر دیا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ کا اشارہ اس روایت کی طرف تھا جسے حضرت ابو ذر ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’عورت، گدھا اور کتا نماز کو توڑ دیتا ہے۔‘‘ ایک روایت میں سیاہ فام کتے کی قید ہے اور اسے آپ نے شیطان قراردیا ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1139(511)) صحیح مسلم ہی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے یہی روایت مروی ہے، لیکن وہاں مطلق کتے کا ذکر ہے، اس کے سیاہ ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1139 (511)) سنن ابی داؤد میں عورت کے ساتھ حائضہ ہونے کا اضافہ ہے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:703) ان روایات میں نماز کوتوڑدینے سےکیا مراد ہے؟ ہم اس سے قبل اس کی وضاحت کر آئے ہیں کہ اس کا راجح مفہوم نماز کا باطل ہوجانا اور نماز کا دو بار دہرایا جانا ہے۔ اگرچہ بعض حضرات نے اس سے خشوع خضوع کی کمی مراد لی ہے اور بعض حضرت ابو ذر ؓ کی حدیث کو منسوخ کہتے ہیں، لیکن پہلے مفہوم کی تائید حدیث سے ہوتی ہے۔ اس لیے وہی مفہوم راجح ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو اصل مضمون کے متعلق شکایت نہیں تھی، کیونکہ وہ خود بھی نماز کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھنے کو پسند نہیں کرتی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مضمون کے پیش نظر وہ کھسک جانے کا عمل کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ ؓ کو روایت بیان کرنے کے انداز اور لب و لہجے پر اعتراض تھا کہ بیان کرنے والوں نے عورت گدھے اور کتے کو ایک ہی فہرست میں شمار کیا ہے، اس کی تعبیر یوں بھی ہو سکتی تھی کہ کتے اور گدھے کے سامنے سے گزرنے پر نماز قطع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح عورتوں کا بھی یہی حکم ہے۔ یعنی حضرت عائشہ کتے، گدھے اور عورت کے مسئلے میں فرق کر رہی ہیں کہ خشوع صلاۃ کو ختم یا کمزور کرنے کے سلسلے میں کتے، گدھے اور عورت تینوں کو شیطان سے تعلق رکھنے کی بنا پر مؤثر مان لیا جائے تب بھی عورت کے متعلق عموم کی بات صحیح نہیں، مثلاً: کتے کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ شیطان ہے اور گدھے کے متعلق ہے کہ جب تم اس کی آواز سنو تو اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو کیونکہ وہ شیطان کو دیکھ کر آواز نکالتا ہے، جبکہ عورت کا یہ معاملہ نہیں۔ بہرحال یہ حضرت عائشہ ؓ کا خیال تھا۔ اس خیال کی وجہ یہی قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو مذکورہ حدیث :(تُعادُ الصَّلاَةُ مِنْ مَمَرِّ الحِمَارِ، وَالمرْأةِ، وَالكَلْبِ الأسْوَدِ) ( سلسلة الأحدیث الصحیحة، رقم: 3323) کا علم نہیں ہو گا جس میں گدھے، عورت اور سیاہ فام کتے، تینوں کے گزرنے پر نماز کو دہرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔