باب:آیت کریمہ ”اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے یعنی رضاعت کا بیان“۔
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: "..your foster-mothers who gave you suck.")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کا بیان کہ جو رشتہ خون سے حرام ہوتا ہے وہ دودھ سے بھی حرام ہوتا ہے۔تشریح:رضاعت یعنی دودھ پینے سے ایسا رشتہ ہو جاتا ہے کہ دودھ پلانے والی عورت ‘اس کا خاوند جس سے دودھ ہے ‘اس کی بیٹی‘ماں‘بہن‘پوتی‘نواسی‘پھوپھی‘بھتیجی‘بھانجی‘باپ‘دادا‘نانا‘ بھائی‘پوتا ‘نواسہ‘چچا‘ بھتیجا‘بھانجا یہ سب شیر خوار کے محرم ہو جاتے ہیں بشرطیکہ پانچ بار دودھ چوسا ہو اور مدت رضاعت یعنی دو برس کے اندر پیا ہو لیکن جس بچی یا بچے نے دودھ پیا اس کے باپ بھائی یا بہن یا ماں‘نانی‘خالہ‘ماموں وغیرہ دودھ دینے والی عورت یا اس کے شوہر پر حرام نہیں ہوتے تو قاعدہ کلیہ یہ ٹھہرا کہ دودھ پلانے والی کی طرف سے تو سب دودھ پینے والے کے محرم ہو جاتے ہیں لیکن دودھ پینے والے کی طرف سے وہ خود یا اس کی اولاد صرف محرم ہوتی ہےاس کے باپ بھائی چچا‘ماموں‘ خالہ وغیرہ محرم نہیں ہوتے (وحیدی)
5141.
سیدہ ام المومنین ام حبیبہ بنت ابو سفیان ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ میری بہن جو ابو سفیان ؓ کی دختر ہے، سے نکاح کرلیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم اسے پسند کرو گی؟“ میں نے کہا : جی ہاں۔ اب بھی تو میں آپ کی اکیلی بیوی نہیں ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میری بہن میرے ساتھ خیر و برکت میں شریک ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ تو میرے لیے حلال نہیں۔“ میں نے عرض کی: ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ سیدنا ابو سلمہ ؓ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ بیٹی جو ام سلمہ کے بطن سے ہے؟“ میں نے کہا : ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر وہ میری رہیبہ (پہلے خاوند سےاولاد، سوتیلی بیٹی) نہ ہوتی تو بھی میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، مجھے اور سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔ تم مجھ پر اپنی بہنیں اور بیٹیاں نکاح کے لیے نہ پیش کیا کرو۔“ عروہ نے کہا: ثوبیہ ابو لہب کی لونڈی تھی۔ ابو لہب نے اسے آزاد کر دیا تھا۔ اس نے نبی ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ جب ابو لہب مرگیا تو اس کے کسی عزیز نے اسے (خواب میں) بری حالت میں دیکھا، اس نے پوچھا : تجھ پر کیا بیتی؟ اس نے کہا : جب میں تم سے جدا ہوا ہوں مجھے کبھی آرام نہیں ملا، سوائے اس بات کے کہ میں اس انگلی سے پانی پلایا جاتا ہوں۔ یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا۔
تشریح:
(1) حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بہن سے نکاح کی پیش کش کی لیکن آپ نے اسے شرف قبولیت سے نہ نوازا کیونکہ دو بہنیں بیک وقت کسی کے نکاح میں نہیں آسکتیں۔ ممکن ہے کہ اس کی حرمت کا سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہما کو علم نہ ہو یا وہ اسے آپ کی خصوصیت کے طور پر جائز سمجھتی ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے احکام دوسروں سے مختلف ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب لوگوں کی یہ بات پہنچی کہ آپ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے وضاحت فرمائی: وہ بھی میرے لیے حلال نہیں ہے اور اس کی حرمت کے دوسبب ہیں: ایک تو یہ کہ وہ میرے زیر پرورش ہے، یعنی ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی بیٹی ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے کیونکہ مجھے اور اس کے والد ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو ثوبیہ رضی اللہ عنہما نے دودھ پلایا تھا، اس بنا پر تم اپنی بہنیں اور بیٹیاں نکاح کے لیے مجھے پیش نہ کیا کرو۔ (2) اس حدیث کی مطابقت عنوان کے دوسرے جز سے ہے کہ جو رشتہ نسب کے سبب حرام ہے وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتا ہے۔ ضروری تنبیہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سُہیلی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر کے دن پیدائش ہوئی تو ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ کے جاکر اسے خوشخبری سنائی، اس خوشی میں اس نے اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا۔ جب وہ مرا تو ایک سال بعد خواب میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اسے انتہائی بری حالت میں دیکھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ مرنے کے بعد مجھے کبھی راحت نصیب نہیں ہوئی صرف پیر کے دن عذاب میں کچھ تخفیف ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري: 181/9) صحیح بخاری کی اس روایت اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وضاحت سے جشن میلاد کا جواز کشید کیا جاتا ہے کہ اگر ابو لہب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن پانی دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا تھا، اہل ایمان کو اس دن بڑھ چڑھ کر خوشی کا اہتمام کرنا چاہیے اور امید رکھنی چاہیے کہ اللہ کے ہاں اس خوشی کی بنا پر خیرات وبرکات حاصل ہوں گی؟ اس استدلال پر ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں: ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں نبوت ملنے کے بعد تئیس (23) مرتبہ آپ کی پیدائش کا دن آیا، آپ نے جشن میلاد کا نہ خود اہتمام کیا اور نہ اس کے اہتمام ہی کا حکم دیا، یہ اس لیے کہ شریعت میں جشن میلاد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے اربعہ سے بھی اس کے متعلق کچھ منقول نہیں۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر پیر کا روزہ رکھتے تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا: ’’اس دن میں پیدا ہوا تھا اور اسی دن مجھے نبوت ملی تھی۔‘‘(صحيح مسلم، الصيام، حديث: 2747 (1162)۔197) ہمیں اس دن روزے کا اہتمام کرنا چاہیے، وہ بھی ہر پیر کو، لیکن سال کے بعد جشن میلاد منانا اور جلوس نکالنا شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اتفاق سے بقول ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش بھی بارہ ربیع الاول ہے جسے چند سال پہلے بارہ وفات کہا جاتا تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ دن بہت بھاری تھا حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ آرہا تھا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما تو آپ کی وفات کی وجہ سے بہت نڈھال تھیں لیکن ہم اسے دن جشن منائیں اور خوشی کا اطہار کریں ایسا کرنا صحابۂ کرام سے محبت کے منافی ہے۔ ٭مذکورہ روایت مرسل ہے اور قرآن کریم کے مخالف ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم ان کے اعمال کی طرف توجہ دیں گے اور انھیں اڑتا ہوا غبار بنا دیں گے۔‘‘(الفرقان: 23) جبکہ مرسل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو لہب کو آزادی کی وجہ سے پانی دیا جائے گا، نیز حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے کفر کی حالت میں یہ خواب دیکھا جو قابل حجت نہیں ہے۔ اگر اسے صحیح تسلیم کرلیا جائے تو خصوصیت پر محمول کیا جائے گا۔ بہرحال اس روایت سے جشن میلاد کا جواز کشید نہیں کیا جاسکتا اور نہ شریعت ہی میں ایسے کاموں کی کوئی گنجائش ہے۔ والله اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4904
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5101
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5101
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5101
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
مذکورہ عنوان ایک آیت کریمہ کا حصہ ہے ۔ اس آیت کریمہ میں تین قسم کے رشتوں کو حرمت کا ذکر کیا گیا ہے۔ان میں ایک دودھ کے ذریعے سے حرام ہونے والے رشتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے دودھ کے احکام ومسائل کا آغاز کیا ہے،پھر ایک حدیث بیان کرکے ان رشتوں کی مزید وضاحت کی ہے۔بہرحال دودھ پینے سے ایسا رشتہ قائم ہوجاتا ہے کہ دودھ پلانے والی عورت، اس کا خاوند، اس کی بیٹی، ماں، بہن، پوتی، نواسی، پھوپھی، خالہ، باپ، بیٹا، دادا، نانا، بھائی، پوتا، نواسا اور چچا یہ سب شیر خوار کے محرم ہوجاتے ہیں بشرطیکہ پانچ مرتبہ دودھ پیا ہو اور مدت رضاعت،یعنی دوسال کے اندر پیا ہو۔لیکن جس لڑکے یا لڑکی نے دودھ پیا ، اس باپ یا بھائی،بہن یا ماں، نانی، خالہ اور ماموں وغیرہ دودھ پلانے والی یا اس کے شوہر پر حرام نہیں ہوں گے،گویا قاعدہ یہ ہے کہ دودھ پلانے والی کی طرف سے تو سب لوگ دودھ پینے والے کے محرم ہوجاتے ہیں لیکن دودھ پینے والے کی طرف سے وہ خود یا اس کی اولاد ہی محرم ہوتی ہے،اس کے باپ، بھائی، چچا،ماموں اور خالہ وغیرہ محرم نہیں ہوتے۔والله اعلم
اور نبی کریم ﷺ کے اس فرمان کا بیان کہ جو رشتہ خون سے حرام ہوتا ہے وہ دودھ سے بھی حرام ہوتا ہے۔تشریح:رضاعت یعنی دودھ پینے سے ایسا رشتہ ہو جاتا ہے کہ دودھ پلانے والی عورت ‘اس کا خاوند جس سے دودھ ہے ‘اس کی بیٹی‘ماں‘بہن‘پوتی‘نواسی‘پھوپھی‘بھتیجی‘بھانجی‘باپ‘دادا‘نانا‘ بھائی‘پوتا ‘نواسہ‘چچا‘ بھتیجا‘بھانجا یہ سب شیر خوار کے محرم ہو جاتے ہیں بشرطیکہ پانچ بار دودھ چوسا ہو اور مدت رضاعت یعنی دو برس کے اندر پیا ہو لیکن جس بچی یا بچے نے دودھ پیا اس کے باپ بھائی یا بہن یا ماں‘نانی‘خالہ‘ماموں وغیرہ دودھ دینے والی عورت یا اس کے شوہر پر حرام نہیں ہوتے تو قاعدہ کلیہ یہ ٹھہرا کہ دودھ پلانے والی کی طرف سے تو سب دودھ پینے والے کے محرم ہو جاتے ہیں لیکن دودھ پینے والے کی طرف سے وہ خود یا اس کی اولاد صرف محرم ہوتی ہےاس کے باپ بھائی چچا‘ماموں‘ خالہ وغیرہ محرم نہیں ہوتے (وحیدی)
حدیث ترجمہ:
سیدہ ام المومنین ام حبیبہ بنت ابو سفیان ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! آپ میری بہن جو ابو سفیان ؓ کی دختر ہے، سے نکاح کرلیں۔ آپ نے فرمایا: ”تم اسے پسند کرو گی؟“ میں نے کہا : جی ہاں۔ اب بھی تو میں آپ کی اکیلی بیوی نہیں ہوں۔ میری خواہش ہے کہ میری بہن میرے ساتھ خیر و برکت میں شریک ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ تو میرے لیے حلال نہیں۔“ میں نے عرض کی: ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ سیدنا ابو سلمہ ؓ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”وہ بیٹی جو ام سلمہ کے بطن سے ہے؟“ میں نے کہا : ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر وہ میری رہیبہ (پہلے خاوند سےاولاد، سوتیلی بیٹی) نہ ہوتی تو بھی میرے لیے حلال نہ تھی کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے، مجھے اور سلمہ کو ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا۔ تم مجھ پر اپنی بہنیں اور بیٹیاں نکاح کے لیے نہ پیش کیا کرو۔“ عروہ نے کہا: ثوبیہ ابو لہب کی لونڈی تھی۔ ابو لہب نے اسے آزاد کر دیا تھا۔ اس نے نبی ﷺ کو دودھ پلایا تھا۔ جب ابو لہب مرگیا تو اس کے کسی عزیز نے اسے (خواب میں) بری حالت میں دیکھا، اس نے پوچھا : تجھ پر کیا بیتی؟ اس نے کہا : جب میں تم سے جدا ہوا ہوں مجھے کبھی آرام نہیں ملا، سوائے اس بات کے کہ میں اس انگلی سے پانی پلایا جاتا ہوں۔ یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بہن سے نکاح کی پیش کش کی لیکن آپ نے اسے شرف قبولیت سے نہ نوازا کیونکہ دو بہنیں بیک وقت کسی کے نکاح میں نہیں آسکتیں۔ ممکن ہے کہ اس کی حرمت کا سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہما کو علم نہ ہو یا وہ اسے آپ کی خصوصیت کے طور پر جائز سمجھتی ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے احکام دوسروں سے مختلف ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب لوگوں کی یہ بات پہنچی کہ آپ حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو آپ نے وضاحت فرمائی: وہ بھی میرے لیے حلال نہیں ہے اور اس کی حرمت کے دوسبب ہیں: ایک تو یہ کہ وہ میرے زیر پرورش ہے، یعنی ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی بیٹی ہیں اور دوسرا یہ کہ وہ میری رضاعی بھتیجی ہے کیونکہ مجھے اور اس کے والد ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو ثوبیہ رضی اللہ عنہما نے دودھ پلایا تھا، اس بنا پر تم اپنی بہنیں اور بیٹیاں نکاح کے لیے مجھے پیش نہ کیا کرو۔ (2) اس حدیث کی مطابقت عنوان کے دوسرے جز سے ہے کہ جو رشتہ نسب کے سبب حرام ہے وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتا ہے۔ ضروری تنبیہ: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے سُہیلی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیر کے دن پیدائش ہوئی تو ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ کے جاکر اسے خوشخبری سنائی، اس خوشی میں اس نے اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا۔ جب وہ مرا تو ایک سال بعد خواب میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اسے انتہائی بری حالت میں دیکھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ مرنے کے بعد مجھے کبھی راحت نصیب نہیں ہوئی صرف پیر کے دن عذاب میں کچھ تخفیف ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري: 181/9) صحیح بخاری کی اس روایت اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وضاحت سے جشن میلاد کا جواز کشید کیا جاتا ہے کہ اگر ابو لہب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے دن پانی دیا جاتا ہے کیونکہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا تھا، اہل ایمان کو اس دن بڑھ چڑھ کر خوشی کا اہتمام کرنا چاہیے اور امید رکھنی چاہیے کہ اللہ کے ہاں اس خوشی کی بنا پر خیرات وبرکات حاصل ہوں گی؟ اس استدلال پر ہماری گزارشات حسب ذیل ہیں: ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں نبوت ملنے کے بعد تئیس (23) مرتبہ آپ کی پیدائش کا دن آیا، آپ نے جشن میلاد کا نہ خود اہتمام کیا اور نہ اس کے اہتمام ہی کا حکم دیا، یہ اس لیے کہ شریعت میں جشن میلاد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے اربعہ سے بھی اس کے متعلق کچھ منقول نہیں۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر پیر کا روزہ رکھتے تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ سے اس کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا: ’’اس دن میں پیدا ہوا تھا اور اسی دن مجھے نبوت ملی تھی۔‘‘(صحيح مسلم، الصيام، حديث: 2747 (1162)۔197) ہمیں اس دن روزے کا اہتمام کرنا چاہیے، وہ بھی ہر پیر کو، لیکن سال کے بعد جشن میلاد منانا اور جلوس نکالنا شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اتفاق سے بقول ان کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم پیدائش بھی بارہ ربیع الاول ہے جسے چند سال پہلے بارہ وفات کہا جاتا تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پر یہ دن بہت بھاری تھا حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ آرہا تھا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما تو آپ کی وفات کی وجہ سے بہت نڈھال تھیں لیکن ہم اسے دن جشن منائیں اور خوشی کا اطہار کریں ایسا کرنا صحابۂ کرام سے محبت کے منافی ہے۔ ٭مذکورہ روایت مرسل ہے اور قرآن کریم کے مخالف ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم ان کے اعمال کی طرف توجہ دیں گے اور انھیں اڑتا ہوا غبار بنا دیں گے۔‘‘(الفرقان: 23) جبکہ مرسل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو لہب کو آزادی کی وجہ سے پانی دیا جائے گا، نیز حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے کفر کی حالت میں یہ خواب دیکھا جو قابل حجت نہیں ہے۔ اگر اسے صحیح تسلیم کرلیا جائے تو خصوصیت پر محمول کیا جائے گا۔ بہرحال اس روایت سے جشن میلاد کا جواز کشید نہیں کیا جاسکتا اور نہ شریعت ہی میں ایسے کاموں کی کوئی گنجائش ہے۔ والله اعلم
ترجمۃ الباب:
اور جو رشتہ خون سے حرام ہوتا ہے وہ دودھ سے بھی حرام ہوجاتا ہے
وضاحت: دودھ پینے سے ایسا رشتہ قائم ہوجاتا ہے کہ دودھ پلانے والی عورت، اس کا خاوند، اس کی بیٹی، ماں، بہن، پوتی، نواسی، پھوپھی، باپ، بیٹا، دادا، نانا، بھائی، پوتا، نواسا، چچا، بھتیجا، اور بھانجا یہ سب شیر خوار کے محروم ہوجاتے ہیں بشرطیکہ پانچ مرتبہ دودھ پیا ہوا اور مدت رضاعت، یعنی دو سال کے اندر پیا ہو، لیکن جس لڑکے یا لڑکی نے دودھ پیا، اس کا باپ یا بھائی، بہن یا ما، نانی، خالہ اور ماموں وغیرہ دودھ پلانے والی یا اس کے شوہر پر حرام نہیں ہوں گے گویا قاعدہ یہ ہے کہ دودھ پلانے والی کی طرف سے تو سب لوگ دودھ پینے والے کے محرم ہوجاتے ہیں لیکن دودھ پینے والے کی طرف سے وہ خود یا س کی اولاد ہی محرم ہوتی ہے اس کے باپ بھائی، چچا، ماموں، اور خالہ وغیرہ محرم نہیں ہوتے۔ واللہ اعلم
حدیث ترجمہ:
ہم سے حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبردی، انہیں زینب بنت ابی سلمہ نے خبر دی اور انہیں ام المومنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان نے خبر دی کہ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میری بہن (ابو سفیان کی لڑکی) سے نکاح کر لیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اسے پسند کرو گی (کہ تمہاری سوکن بہن بنے؟) میں نے عرض کیا ہاں میں تو پسند کرتی ہوں اگر میں اکیلی آپ کی بیوی ہوتی تو پسند نہ کرتی۔ پھر میری بہن اگر میرے ساتھ بھلائی میں شریک ہو تو میں کیونکر نہ چاہوںگی (غیروں سے تو بہن ہی اچھی ہے) آپ نے فرمایا وہ میرے لئے حلال نہیں ہے۔ حضرت ام حبیبہ ؓ نے کہا یا رسول اللہ! لوگ کہتے ہیں آپ ابوسلمہ کی بیٹی سے جو ام سلمہ کے پیٹ سے ہے، نکاح کرنے والے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرما یا اگر وہ میری ربیبہ اور میری پرورش میں نہ ہوتی (یعنی میری بیوی کی بیٹی نہ ہوتی) جب بھی میرے لئے حلال نہ ہوتی، وہ دوسرے رشتے سے میری دودھ بھتیجی ہے، مجھ کواور ابو سلمہ کے باپ کو دونوں کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ دیکھو، ایسا مت کرو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ سے نکاح کرنے کے لئے نہ کہو۔ حضرت عروہ راوی نے کہا ثوبیہ ابو لہب کی لونڈی تھی۔ ابولہب نے اس کوآزاد کر دیا تھا۔ (جب اس نے آنحضرت ﷺ کے پیدا ہونے کی خبر ابولہب کو دی تھی) پھر اس نے آنحضرت ﷺ کو دودھ پلایا تھا جب ابو لہب مر گیا تو اس کے کسی عزیز نے مرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے کیا گزری؟ وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملا مگر ایک ذراسا پانی (پیر کے دن مل جاتا ہے) ابو لہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کے انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کر دیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Um Habiba (RA) : (daughter of Abu Sufyan (RA) ) I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Marry my sister. the daughter of Abu Sufyan (RA) ." The Prophet (ﷺ) said, "Do you like that?" I replied, "Yes, for even now I am not your only wife and I like that my sister should share the good with me." The Prophet (ﷺ) said, "But that is not lawful for me." I said, We have heard that you want to marry the daughter of Abu Salama." He said, "(You mean) the daughter of Um Salama?" I said, "Yes." He said, "Even if she were not my step-daughter, she would be unlawful for me to marry as she is my foster niece. I and Abu Salama were suckled by Thuwaiba. So you should not present to me your daughters or your sisters (in marriage)." Narrated 'Ursa; Thuwaiba was the freed slave girl of Abu Lahb whom he had manumitted, and then she suckled the Prophet. When Abu Lahb died, one of his relatives saw him in a dream in a very bad state and asked him, "What have you encountered?" Abu Lahb said, "I have not found any rest since I left you, except that I have been given water to drink in this (the space between his thumb and other fingers) and that is because of my manumitting Thuwaiba."