تشریح:
(1) دیانت و امانت کا تقاضا ہے کہ کوئی آدمی دوسرے کے سودے یا اس کی منگنی کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرے، ہاں وہ خود چھوڑ دے یا اجازت دے دے تو الگ بات ہے۔
(2) یہ امتناعی حکم اس صورت میں ہے کہ عورت کا میلان ہو جائے اور منگنے طے پاجائے کیونکہ فاطمہ بنت قیس کو جب طلاق ہوئی تو عدت ختم ہونے کے بعد حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ اور ابوجہم رضی اللہ عنہ نے اسے پیغام نکاح بھیجا۔ اس سلسلے میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا تو آپ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے نکاح کرنے کا مشورہ دیا۔ اس صورت میں حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کا میلان کسی طرف نہیں ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا مشورہ دے دیا۔
(3) بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کے واقعے سے امتناعی حکم منسوخ ہو گیا ہے۔ یہ موقف محل نظر ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ امتناعی حکم اس صورت میں ہے جب پہلے شخص نے جائز طور پر پیغام نکاح بھیجا ہو۔ اگر اس کا پیغام نکاح بھیجنا ہی جائز نہ تھا، مثلاً: اس نے دوران عدت میں پیغام نکاح بھیجا تو اس صورت میں عدت ختم ہونے کے بعد کوئی بھی پیغام نکاح بھیج سکتا ہے اور پہلا پیغام کا لعدم ہوگا۔ (فتح الباري: 251/9)