باب: اگرصرف دودھ پلانے والی عورت رضاعت کی گواہی دے
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: The witness of a wet nurse)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5144.
سیدنا عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو ایک سیاپ فام عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں اس وقت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو ایک عورت نے آکر کہا ہے کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، حالانکہ وہ جھوٹ بولتی ہے۔ آپ ﷺ نے میری طرف سے منہ پھیر لیا۔ میں نے آپ کے چہرہ انور کی طرف آکر عرض کی: وہ عورت جھوٹ کہتی ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ”اب اس بیوی سے کیے نکاح رہ سکے گا جبکہ اس عورت نے تمہیں دودھ پلانے کی شہادت دی ہے؟ اس عورت کو اپنے سے الگ کردو۔“ (راوی حدیث) اسماعیل بن علیہ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا کہ شیخ محترم نے اس طرح اشارہ کیا تھا۔
تشریح:
(1) اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان سے بھی فرمایا: اس عورت سے علیحدگی اختیار کر لو اور فراق کے متعلق انگلیوں سے اشارہ بھی فرمایا۔ (2) کچھ حضرات کا خیال ہے کہ رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی گواہی قبول نہیں ہوگی۔ وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاط کے طور پر یہ حکم دیا مگر ایسا کہنا درست نہیں۔ حلال و حرام کے معاملے میں آپ نے ایک عورت کی شہادت کو قبول کر کے یہ حکم دیا تھا۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ رضاعت کے متعلق صرف ایک عورت کی گواہی معتبر ہے جیسا کہ اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔ والله اعلم (3) وہ عورت جس سے حضرت عقبہ بن حارث نے نکاح کیا تھا وہ ابو اہاب بن عزیز تمیمی کی بیٹی تھی۔ جب سیاہ فام عورت نے دودھ پلانے کی خبر دی تو حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں تو اس کا علم نہیں ہے اور نہ تونے اس سے پہلے ہمیں بتایا ہے، پھر انھوں نے سسرال والوں سے دریافت کیا تو انھوں نے بھی بتایا کہ ہم قطعی طور پر اس معاملے سے بے خبر ہیں، پھر انھوں نے مدینہ طیبہ کا سفر اختیار کیا تاکہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں۔ آخر کار انھوں نے اسے چھوڑ دیا تو اس نے کسی دوسرے آدمی سے نکاح کرلیا۔ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2640) واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے انھی الفاظ کے ساتھ ایک عنوان كتاب الشهادات میں بھی قائم کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4907
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5104
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5104
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5104
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: اگر دودھ پلانے والی عورت قسم اٹھا کر شہادت دے کہ اس نے فلاں بچے کو دودھ پلایا ہے تو اس کی شہادت قبول ہوگی۔امام زہری، اوزاعی، امام احمد اور امام اسحاق رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں۔(عمدۃ القاری: 50/14) ابن بطال نے بڑی عجیب بات کہی ہے کہ رضاعت کے متعلق صرف ایک عورت کی گواہی قبول نہ کرنے پر اجماع ہے،حالانکہ اسلاف میں ایک جماعت نے صرف ایک عورت کی گواہی کو معتبر خیال کیا ہے۔(فتح الباری: 9/191)
سیدنا عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے ایک عورت سے نکاح کیا تو ایک سیاپ فام عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ میں اس وقت نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے فلاں عورت سے نکاح کیا تو ایک عورت نے آکر کہا ہے کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، حالانکہ وہ جھوٹ بولتی ہے۔ آپ ﷺ نے میری طرف سے منہ پھیر لیا۔ میں نے آپ کے چہرہ انور کی طرف آکر عرض کی: وہ عورت جھوٹ کہتی ہے نبی ﷺ نے فرمایا: ”اب اس بیوی سے کیے نکاح رہ سکے گا جبکہ اس عورت نے تمہیں دودھ پلانے کی شہادت دی ہے؟ اس عورت کو اپنے سے الگ کردو۔“ (راوی حدیث) اسماعیل بن علیہ نے اپنی شہادت اور درمیان والی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا کہ شیخ محترم نے اس طرح اشارہ کیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان سے بھی فرمایا: اس عورت سے علیحدگی اختیار کر لو اور فراق کے متعلق انگلیوں سے اشارہ بھی فرمایا۔ (2) کچھ حضرات کا خیال ہے کہ رضاعت کے سلسلے میں ایک عورت کی گواہی قبول نہیں ہوگی۔ وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاط کے طور پر یہ حکم دیا مگر ایسا کہنا درست نہیں۔ حلال و حرام کے معاملے میں آپ نے ایک عورت کی شہادت کو قبول کر کے یہ حکم دیا تھا۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ رضاعت کے متعلق صرف ایک عورت کی گواہی معتبر ہے جیسا کہ اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔ والله اعلم (3) وہ عورت جس سے حضرت عقبہ بن حارث نے نکاح کیا تھا وہ ابو اہاب بن عزیز تمیمی کی بیٹی تھی۔ جب سیاہ فام عورت نے دودھ پلانے کی خبر دی تو حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمیں تو اس کا علم نہیں ہے اور نہ تونے اس سے پہلے ہمیں بتایا ہے، پھر انھوں نے سسرال والوں سے دریافت کیا تو انھوں نے بھی بتایا کہ ہم قطعی طور پر اس معاملے سے بے خبر ہیں، پھر انھوں نے مدینہ طیبہ کا سفر اختیار کیا تاکہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں۔ آخر کار انھوں نے اسے چھوڑ دیا تو اس نے کسی دوسرے آدمی سے نکاح کرلیا۔ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2640) واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے انھی الفاظ کے ساتھ ایک عنوان كتاب الشهادات میں بھی قائم کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے، کہا ہم کو ایوب سختیانی نے خبر دی، انہیں عبد اللہ بن ابی ملیکہ نے، کہا کہ مجھ سے عبید اللہ بن ابی مریم نے بیان کیا، ان سے عقبہ بن حارث ؓ نے (عبداللہ بن ابی ملیکہ نے) بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث خود عقبہ سے بھی سنی ہے لیکن مجھے عبید کے واسطے سے سنی ہوئی حدیث زیادہ یاد ہے۔ عقبہ بن حارث نے بیان کیا کہ میں نے ایک عورت (ام یحییٰ بن ابی اہاب) سے نکاح کیا۔ پھر ایک کالی عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں (میاں بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں نے فلانی بنت فلاں سے نکاح کیا ہے۔ اس کے بعد ہمارے یہاں ایک کالی عورت آئی اور مجھ سے کہنے لگی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، حالانکہ وہ جھوٹی ہے (آپ ﷺ کو عقبہ کا یہ کہنا کہ وہ جھوٹی ہے ناگوار گزرا) آپ نے اس پر اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا۔ پھر میں آپ کے سامنے آیا اور عرض کیا وہ عورت جھوٹی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ”اس بیوی سے اب کیسے نکاح رہ سکے گا جبکہ یہ عورت یوں کہتی ہے کہ اس نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، اس عورت کو اپنے سے الگ کردو۔“ (حدیث کے راوی) اسماعیل بن علیہ نے اپنی شہادت اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا کہ ایوب نے اس طرح اشارہ کرکے بتايا۔
حدیث حاشیہ:
اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ کو بتایا تھا۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ نقل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں سے بھی اشارہ کیا اور زبان سے بھی فرمایا کہ اس عورت کو چھوڑ دے جو لوگ کہتے ہیں کہ رضاعت صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت نہیں ہوتی وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ نے احتیاطاً یہ حکم فرمایا تھا۔ مگر ایسا کہنا ٹھیک نہیں، حلال و حرام کا معاملہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شہادت کو تسلیم کر کے عورت کو جدا کرا دیا یہی صحیح ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Uqba bin Al-Harith (RA) : I married a woman and then a black lady came to us and said, "I have suckled you both (you and your wife)." So I came to the Prophet (ﷺ) and said, "I married so-and-so and then a black lady came to us and said to me, 'I have suckled both of you.' But I think she is a liar." The Prophet (ﷺ) turned his face away from me and I moved to face his face, and said, "She is a liar." The Prophet (ﷺ) said, "How (can you keep her as your wife) when that lady has said that she has suckled both of you? So abandon (i.e., divorce) her (your wife)."