تشریح:
(1) اس حدیث میں کھجور کی گٹھلی کے برابر سونے کے حق مہر ہونے کا ذکر ہے لیکن یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ وہ گٹھلی کتنی مقدار کی تھی، نیز بڑی تھی یا چھوٹی تھی اور اس کا وزن کتنا تھا۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی وضاحت سن کر خاموشی اختیار کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حق مہر کی مقدار معین نہیں ہے، فریقین جس پر اتفاق کرلیں اور راضی ہو جائیں وہ مہر سمجھا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مقصود ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ آج کل محض نام و نمود کی خاطر ہزاروں حق مہر باندھ لیتے ہیں، بعد میں اس کی ادائیگی کا نام تک نہیں لیتے۔ بیوی بے چاری رواداری میں خاموش رہتی ہے۔ ایسے حضرات کو چاہیے کہ وہ اتنا ہی حق مہر رکھیں جسے آسانی اور خوشی کے ساتھ ادا کرسکیں۔ اس سلسلے میں انانیت اور جھوٹی عزت نفس کو نظر انداز کریں۔
(3) واضح رہے کہ حق مہر لڑکی کا حق ہے۔ اگر وہ کسی دباؤ کے بغیر اپنی رضا و رغبت سے تمام یا کچھ حصہ معاف کر دے تو یہ اس کی فیاضی اور دریا دلی ہے، بصورت دیگر سارا حق مہر ادا کرنا ضروری ہے۔ والله اعلم