تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے نکاح کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن تو اپنا معاملہ میرے حوالے کر دے۔‘‘ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ پھر آپ نے لوگوں کی طرف دیکھا اور ایک آدمی کو بلا کرکہا: ’’میں چاہتا ہوں کہ تیرا نکاح اس سے کر دوں، کیا تو راضی ہے؟‘‘ اس نے کہا: جو آپ نے انتخاب کیا وہ مجھے پسند ہے۔ اس کے بعد آپ نے اس کا نکاح کر دیا۔ (فتح الباري: 259/9)
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مالی حق مہر کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض قرآن کی تعلیم دینے پر اس کا نکاح کر دیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی ثابت کیا ہے کہ نکاح کے لیے مالی حق مہر کا ہونا ضروری نہیں بلکہ فریقین جس پر اتفاق کر لیں وہ حق مہر ہو سکتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہما کو پیغام نکاح بھیجا تو انھوں نے جواب دیا کہ تیرے جیسے آدمی کا پیغام مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن تو کافر ہے اور میں مسلمان ہوں، ایسے حالات میں میرا نکاح آپ سے حلال نہیں ہے، ہاں اگر تو مسلمان ہو جائے تو تیرا اسلام ہی میرا حق مہر ہوگا اور میں اس کے علاوہ آپ سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کروں گی، چنانچہ وہ مسلمان ہو گئے اور یہی اسلام لانا ہی ان کا حق مہر ٹھہرا۔ (سنن النسائي، النکاح، حدیث: 3343) امام نسائی نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے (باب التزوج على سور من القرآن) ’’اسلام لانے کے عوض نکاح کرنا۔‘‘ اور حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث پر انھوں نے یہ باب قائم کیا ہے: (التزوج على الإسلام) ’’کسی سورت کی تعلیم کے عوض نکاح کرنا۔‘‘ معلوم ہوا کہ نکاح کے لیے مالی حق مہر کا ہونا ضروری نہیں۔ والله اعلم