باب: چاہیے کہ نماز پڑھنے والا اپنے سامنے سے گزرنے والے کو روک دے۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The person offering Salat (prayer) should repulse that person who tries to pass in front of him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عمرؓ نے کعبہ میں کہ آپ تشہد کے لیے بیٹھے ہوئے تھے روک دیا تھا اور اگر وہ(گزرنے والا)لڑائی پر اتر آئے تو اس سے لڑے۔عبداللہ بن عمر ؓ کے اس اثر کو ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق نے نکالا ہےاس سے ان لوگوں کا رد مقصود ہے جو کعبہ میں نمازی کے سامنے سے گزرنا معاف جانتے ہیں
515.
ابوصالح سمان فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ کو دیکھا کہ وہ جمعۃ المبارک کے دن کسی چیز کو لوگوں سے سترہ بنا کر نماز پڑھ رہے تھے کہ ابومعیط کے بیٹوں میں سے ایک نوجوان نے ان کے آگے سے گزرنے کی کوشش کی۔ حضرت ابوسعید نے اس کو سینے سے دھکیل کر روکنا چاہا۔ نوجوان نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن آگے سے گزرنے کے علاوہ اسے کوئی راستہ نہ ملا۔ وہ پھر اس طرف سے نکلنے کے لیے لوٹا تو حضرت ابوسعید خدری ؓ نے اسے پہلے سے زیادہ زوردار دھکا دیا۔ اس نے اس پر حضرت ابوسعید خدری ؓ کو برا بھلا کہا۔ بعد ازاں وہ حضرت مروان کے پاس پہنچ گیا اور ابوسعید ؓ سے جو معاملہ پیش آیا تھا اس کی شکایت کی۔ حضرت ابوسعید ؓ بھی اس کے پیچھے مروان کے پاس پہنچ گئے۔ مروان نے کہا: اے ابوسعید! تمہارا اور تمہارے بھتیجے کا کیا معاملہ ہے؟ حضرت ابوسعید ؓ نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’تم میں سے کوئی اگر کسی چیز کو لوگوں سے سترہ بنا کر نماز پڑھے، پھر کوئی اس کے سامنے سے گزرنے کی کوشش کرے تو وہ (نمازی) اسے روکے۔ اگر وہ (گزرنے والا) نہ رکے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک صورت معاملہ یوں ہے کہ اگر کوئی نمازی کے آگے سے گزر کر اس تعلق کو ختم کرنا چاہتا ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان نماز کی وجہ سے قائم ہوا ہے تو نمازی کے لیے اس تعلق کو قائم رکھنے کا پورا پورا حق ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے آگے سے گزرنے والے کو منع کرے، یعنی اسے نرمی سے متنبہ کرے۔ اگرباز نہ آئے تو سختی سے روکنے کی اجازت ہے۔ اگروہ اشارہ نہ مانے تو دھکا دے کر اسے روکا جائے، لیکن اس روکنے میں دھکم پیل اور مارپیٹ کی نوبت نہیں آنی چاہیے، کیونکہ ایسے اعمال نماز کے لیے باعث فساد ہیں۔ گزرنے والے کو روکنا تو نماز کی حفاظت کے لیے تھا، اگر اسے اس انداز سے روکا گیا کہ نماز ہی خراب ہوگئی تو’’گناہ لازم اور نیکی برباد‘‘والی صورت پیدا ہوجائے گی۔ امام بخاری ؒ نے ایک دوسرے مقام پر اس حدیث کو بیان کیا ہے تو مطلق طور پر روکنے کا بیان ہے، خواہ نمازی نے سترہ رکھا ہو یا اس کے بغیر نماز پڑھ رہا ہو۔ الفاظ یہ ہیں: نمازی کو چاہیے کہ وہ گزرنے والے کو روکے، اگروہ نہ رکے تو اس کے ساتھ مزاحمت کرے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث:3274) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس نے ربط خیال اور تحفظ نماز کا بندوبست نہ کر کے خود کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے، بالخصوص جبکہ وہ عام گزرگاہ میں نماز پڑھ رہا ہو۔ مصنف عبدالرزاق میں سترے اور غیر سترے والی نماز کا فرق بیان کیا گیا ہے، اس بنا پر اگر کوئی نمازی سترے کے بغیر نمازپڑھتا ہے یا سترہ رکھنے کے باوجود اس سے دور کھڑا ہوتا ہے تو ایسی حالت میں آگے سے گزرنا گناہ نہیں اور نہ گزرنے والے کو روکنا ہی جائز ہے، تاہم بہتر ہے کہ ایسی حالت میں بھی نمازی کے سامنے سے نہ گزرا جائے۔ (فتح الباري:753/1) لیکن حافظ ابن حجر ؒ کی جلالت قدر کے باوجود ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں، کیونکہ احادیث کے ظاہری مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ نمازی کے آگے سے کسی بھی حالت میں نہ گزرا جائے اور اگر کوئی گزرتا ہے تو اسے ر وکاجائے۔ ہاں! اگر گزرنے والا مجبور ہو کہ اسے اور کوئی راستہ نہیں ملتا اور وہ انتظار بھی نہیں کرسکتا تو امید ہے کہ اسے گناہ نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی نمازی سے اتنا دور ہے کہ اسے عرف میں اس کے آگے سے گزرنے والا نہیں کہا جاسکتا تو ایسی صورت میں بھی گزرنا جائز ہے، گویا وہ سترے کے پیچھے سے گزر رہا ہے۔ اس سلسلے میں امام ابن دقیق العید ؒ نے کچھ تفصیل بھی بیان کی ہے جسے ہم آئندہ بیان کریں گے۔ 2۔ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ گزرنے والے کو روکنا ضروری نہیں، بلکہ بہتر ہے کہ اسے روک کر اپنی نماز کا تحفظ کرے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں، لیکن اہل ظاہر نے اسے واجب کہا ہے۔ شاید امام نووی ؒ ان کے اختلاف کو کسی خاطر میں نہیں لاتے یا انھوں نے اہل ظاہر کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا۔ گزرنے والے کو شیطان اس لے کہا گیا کہ وہ اللہ اور بندے کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے تاکہ مناجات کے تعلق کو ختم کردے جو شیطان کا کام ہے۔ (فتح الباري:754/1) 3۔ رسول اللہ ﷺ نے نمازی کو پابند کیا ہے کہ وہ آگے سے کسی کو نہ گزرنے دے۔ یہ حکم نماز کی حفاظت کے لیے ہے یا گزرنے والے کو گناہ سے بچانے کے لیے؟ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ اہتمام گزرنے والے کو گناہ سے بچانے کے لیے ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اپنی نماز کے تحفظ کے لیے اسے اس بات کا پابند بنایا گیا ہے، کیونکہ نمازی کے لیے اپنی نماز کی حفاظت کرنا زیادہ ضروری ہے۔ دوسرے کو گناہوں سے باز رکھنا اپنی نماز کی حفاظت سے زیادہ اہم نہیں، کیونکہ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ کسی کا نمازی کے آگے سے گزرنا اس قدر منحوس ہے کہ اس سے نصف اجر کی کمی ہوجاتی ہے، نیز حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اگر نمازی کو پتہ چل جائے کہ اس کے آگے سے گزرنا کس قدر ثواب کی کمی کا باعث ہے تو کبھی سترے کے بغیر نماز نہ پڑھے۔ یہ دونوں آثار اگرچہ موقوف ہیں، تاہم انھیں مرفوع کہا جائے گا، کیونکہ ایسی بات اپنی رائے سے نہیں کہی جاسکتی، تاہم ان کا تقاضا ہے کہ نمازی کا یہ اہتمام اپنی نماز کی حفاظت کے لیے ہے، گزرنے ولے کو گناہ سے بچانا اس سے مقصود نہیں۔ (فتح الباري:755/1) ممکن ہے ہر دو مقاصد کے لیے نمازی کو پابند کیا گیا ہو کہ وہ سترہ رکھ کر نماز پڑھے اور گزرنے والے کو متنبہ کرے تاکہ اس کی نماز بھی محفوظ رہے اور گزرنے ولا بھی گناہ سے بچ جائے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
504
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
509
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
509
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
509
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
نمازی کو چاہیے کہ وہ آگے سے گزرنے والے کو کسی صورت آگے سے گزرنے نہ دے۔یہ حکم اول نماز اور آخر نماز میں برابرہے اور کعبہ اور غیر کعبہ میں بھی کوئی فرق نہیں۔اس سلسلے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اثر پیش کیا گیا ہے کہ آپ نے تشہد کی حالت میں بھی گزرنے والے کو روکا اور بیت اللہ کے اندر نماز ادا کرتے ہوئے بھی کسی کو آگے سے گزرنے نہیں دیا۔حالت تشہد میں روکنے سے متعلق اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ (149/2) اورمصنف عبدالرزاق(23/2) میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔اور ان میں وضاحت ہے کہ گزرنے والا عمرو بن دینار تھا جسے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوران تشہد میں روکا۔اور بیت اللہ میں نماز پڑھتے وقت روکنے کی روایت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے استاد ابونعیم نے اپنی تالیف"کتاب الصلاۃ" میں موصولاً بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیت اللہ میں نماز پڑھتے وقت کسی کو اپنے آگے سے نہیں گزرنے دیتے تھے۔( فتح الباری 752/1۔) اور روکنے پر باز نہ آنے والے سے لڑائی کرنے والے جملے کو امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف (20/2) میں موصولاً ذکر کیا ہے۔
اور عبداللہ بن عمرؓ نے کعبہ میں کہ آپ تشہد کے لیے بیٹھے ہوئے تھے روک دیا تھا اور اگر وہ(گزرنے والا) لڑائی پر اتر آئے تو اس سے لڑے۔عبداللہ بن عمر ؓ کے اس اثر کو ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق نے نکالا ہےاس سے ان لوگوں کا رد مقصود ہے جو کعبہ میں نمازی کے سامنے سے گزرنا معاف جانتے ہیں
حدیث ترجمہ:
ابوصالح سمان فرماتے ہیں: میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ کو دیکھا کہ وہ جمعۃ المبارک کے دن کسی چیز کو لوگوں سے سترہ بنا کر نماز پڑھ رہے تھے کہ ابومعیط کے بیٹوں میں سے ایک نوجوان نے ان کے آگے سے گزرنے کی کوشش کی۔ حضرت ابوسعید نے اس کو سینے سے دھکیل کر روکنا چاہا۔ نوجوان نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن آگے سے گزرنے کے علاوہ اسے کوئی راستہ نہ ملا۔ وہ پھر اس طرف سے نکلنے کے لیے لوٹا تو حضرت ابوسعید خدری ؓ نے اسے پہلے سے زیادہ زوردار دھکا دیا۔ اس نے اس پر حضرت ابوسعید خدری ؓ کو برا بھلا کہا۔ بعد ازاں وہ حضرت مروان کے پاس پہنچ گیا اور ابوسعید ؓ سے جو معاملہ پیش آیا تھا اس کی شکایت کی۔ حضرت ابوسعید ؓ بھی اس کے پیچھے مروان کے پاس پہنچ گئے۔ مروان نے کہا: اے ابوسعید! تمہارا اور تمہارے بھتیجے کا کیا معاملہ ہے؟ حضرت ابوسعید ؓ نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’تم میں سے کوئی اگر کسی چیز کو لوگوں سے سترہ بنا کر نماز پڑھے، پھر کوئی اس کے سامنے سے گزرنے کی کوشش کرے تو وہ (نمازی) اسے روکے۔ اگر وہ (گزرنے والا) نہ رکے تو اس سے لڑے کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک صورت معاملہ یوں ہے کہ اگر کوئی نمازی کے آگے سے گزر کر اس تعلق کو ختم کرنا چاہتا ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان نماز کی وجہ سے قائم ہوا ہے تو نمازی کے لیے اس تعلق کو قائم رکھنے کا پورا پورا حق ہے۔ اسے چاہیے کہ اپنے آگے سے گزرنے والے کو منع کرے، یعنی اسے نرمی سے متنبہ کرے۔ اگرباز نہ آئے تو سختی سے روکنے کی اجازت ہے۔ اگروہ اشارہ نہ مانے تو دھکا دے کر اسے روکا جائے، لیکن اس روکنے میں دھکم پیل اور مارپیٹ کی نوبت نہیں آنی چاہیے، کیونکہ ایسے اعمال نماز کے لیے باعث فساد ہیں۔ گزرنے والے کو روکنا تو نماز کی حفاظت کے لیے تھا، اگر اسے اس انداز سے روکا گیا کہ نماز ہی خراب ہوگئی تو’’گناہ لازم اور نیکی برباد‘‘والی صورت پیدا ہوجائے گی۔ امام بخاری ؒ نے ایک دوسرے مقام پر اس حدیث کو بیان کیا ہے تو مطلق طور پر روکنے کا بیان ہے، خواہ نمازی نے سترہ رکھا ہو یا اس کے بغیر نماز پڑھ رہا ہو۔ الفاظ یہ ہیں: نمازی کو چاہیے کہ وہ گزرنے والے کو روکے، اگروہ نہ رکے تو اس کے ساتھ مزاحمت کرے۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث:3274) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس نے ربط خیال اور تحفظ نماز کا بندوبست نہ کر کے خود کوتاہی کا ارتکاب کیا ہے، بالخصوص جبکہ وہ عام گزرگاہ میں نماز پڑھ رہا ہو۔ مصنف عبدالرزاق میں سترے اور غیر سترے والی نماز کا فرق بیان کیا گیا ہے، اس بنا پر اگر کوئی نمازی سترے کے بغیر نمازپڑھتا ہے یا سترہ رکھنے کے باوجود اس سے دور کھڑا ہوتا ہے تو ایسی حالت میں آگے سے گزرنا گناہ نہیں اور نہ گزرنے والے کو روکنا ہی جائز ہے، تاہم بہتر ہے کہ ایسی حالت میں بھی نمازی کے سامنے سے نہ گزرا جائے۔ (فتح الباري:753/1) لیکن حافظ ابن حجر ؒ کی جلالت قدر کے باوجود ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں، کیونکہ احادیث کے ظاہری مفہوم کا تقاضا یہ ہے کہ نمازی کے آگے سے کسی بھی حالت میں نہ گزرا جائے اور اگر کوئی گزرتا ہے تو اسے ر وکاجائے۔ ہاں! اگر گزرنے والا مجبور ہو کہ اسے اور کوئی راستہ نہیں ملتا اور وہ انتظار بھی نہیں کرسکتا تو امید ہے کہ اسے گناہ نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر کوئی نمازی سے اتنا دور ہے کہ اسے عرف میں اس کے آگے سے گزرنے والا نہیں کہا جاسکتا تو ایسی صورت میں بھی گزرنا جائز ہے، گویا وہ سترے کے پیچھے سے گزر رہا ہے۔ اس سلسلے میں امام ابن دقیق العید ؒ نے کچھ تفصیل بھی بیان کی ہے جسے ہم آئندہ بیان کریں گے۔ 2۔ امام نووی ؒ کہتے ہیں کہ گزرنے والے کو روکنا ضروری نہیں، بلکہ بہتر ہے کہ اسے روک کر اپنی نماز کا تحفظ کرے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں، لیکن اہل ظاہر نے اسے واجب کہا ہے۔ شاید امام نووی ؒ ان کے اختلاف کو کسی خاطر میں نہیں لاتے یا انھوں نے اہل ظاہر کی کتب کا مطالعہ نہیں کیا۔ گزرنے والے کو شیطان اس لے کہا گیا کہ وہ اللہ اور بندے کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے تاکہ مناجات کے تعلق کو ختم کردے جو شیطان کا کام ہے۔ (فتح الباري:754/1) 3۔ رسول اللہ ﷺ نے نمازی کو پابند کیا ہے کہ وہ آگے سے کسی کو نہ گزرنے دے۔ یہ حکم نماز کی حفاظت کے لیے ہے یا گزرنے والے کو گناہ سے بچانے کے لیے؟ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ اہتمام گزرنے والے کو گناہ سے بچانے کے لیے ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ اپنی نماز کے تحفظ کے لیے اسے اس بات کا پابند بنایا گیا ہے، کیونکہ نمازی کے لیے اپنی نماز کی حفاظت کرنا زیادہ ضروری ہے۔ دوسرے کو گناہوں سے باز رکھنا اپنی نماز کی حفاظت سے زیادہ اہم نہیں، کیونکہ حضرت ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ کسی کا نمازی کے آگے سے گزرنا اس قدر منحوس ہے کہ اس سے نصف اجر کی کمی ہوجاتی ہے، نیز حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اگر نمازی کو پتہ چل جائے کہ اس کے آگے سے گزرنا کس قدر ثواب کی کمی کا باعث ہے تو کبھی سترے کے بغیر نماز نہ پڑھے۔ یہ دونوں آثار اگرچہ موقوف ہیں، تاہم انھیں مرفوع کہا جائے گا، کیونکہ ایسی بات اپنی رائے سے نہیں کہی جاسکتی، تاہم ان کا تقاضا ہے کہ نمازی کا یہ اہتمام اپنی نماز کی حفاظت کے لیے ہے، گزرنے ولے کو گناہ سے بچانا اس سے مقصود نہیں۔ (فتح الباري:755/1) ممکن ہے ہر دو مقاصد کے لیے نمازی کو پابند کیا گیا ہو کہ وہ سترہ رکھ کر نماز پڑھے اور گزرنے والے کو متنبہ کرے تاکہ اس کی نماز بھی محفوظ رہے اور گزرنے ولا بھی گناہ سے بچ جائے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓ نے تشہد میں بیٹھے ہوئے اور بیت اللہ میں، گزرنے والے کو روکا اور فرمایا کہ اگر گزرنے والا لڑائی کے بغیر باز نہ آئے تو اس سے لڑنا چاہئے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یونس بن عبید نے حمید بن ہلال کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے ابوصالح ذکوان سمان سے کہ ابوسعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا (دوسری سند) اور ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے، کہا ہم سے حمید بن ہلال عدوی نے، کہا ہم سے ابوصالح سمان نے، کہا میں نے ابوسعید خدری ؓ کو جمعہ کے دن نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ کسی چیز کی طرف منہ کئے ہوئے لوگوں کے لیے اسے آڑ بنائے ہوئے تھے۔ ابومعیط کے بیٹوں میں سے ایک جوان نے چاہا کہ آپ کے سامنے سے ہو کر گزر جائے۔ ابوسعید ؓ نے اس کے سینہ پر دھکا دے کر باز رکھنا چاہا۔ جوان نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی راستہ سوائے سامنے سے گزرنے کے نہ ملا۔ اس لیے وہ پھر اسی طرف سے نکلنے کے لیے لوٹا۔ اب ابوسعید ؓ نے پہلے سے بھی زیادہ زور سے دھکا دیا۔ اسے ابوسعید ؓ سے شکایت ہوئی اور وہ اپنی یہ شکایت مروان کے پاس لے گیا۔ اس کے بعد ابوسعید ؓ بھی تشریف لے گئے۔ مروان نے کہا اے ابوسعید ؓ آپ میں اور آپ کے بھتیجے میں کیا معاملہ پیش آیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے آپ نے فرمایا تھا کہ جب کوئی شخص نماز کسی چیز کی طرف منہ کر کے پڑھے اور اس چیز کو آڑ بنا رہا ہو پھر بھی اگر کوئی سامنے سے گزرے تو اسے روک دینا چاہیے۔ اگر اب بھی اسے اصرار ہو تو اسے لڑنا چاہیے۔ کیونکہ وہ شیطان ہے۔
حدیث حاشیہ:
نمازی کے آگے سے گزرنا سخت ترین گناہ ہے۔ اگرگزرنے والا قصداً یہ حرکت کررہا ہے تووہ یقیناً شیطان ہے۔ جوخدا اور بندے کے درمیان حائل ہو رہا ہے۔ ایسے گزرنے والے کو حتی الامکان روکنا چاہیے حتیٰ کہ حضرت ابوسعید خدری ؓ کی طرح ضرورت ہو تو اسے دھکادے کر بھی باز رکھا جائے، بعض لوگ ارشاد نبوی فلیقاتله کو مبالغہ پر محمول کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Salih As-Samman (RA): I saw Abu Sa'id Al-Khudri(RA) praying on a Friday, behind something which acted as a Sutra. A young man from Bani Abi Mu'ait, wanted to pass in front of him, but Abu Said repulsed him with a push on his chest. Finding no alternative he again tried to pass but Abu Said pushed him with a greater force. The young man abused Abu Said and went to Marwan and lodged a complaint against Abu Said and Abu Said followed the young man to Marwan who asked him, "O Abu Said! What has happened between you and the son of your brother?" Abu Sa'id said to him, "I heard the Prophet (ﷺ) saying, 'If anybody amongst you is praying behind something as a Sutra and somebody tries to pass in front of him, then he should repulse him and if he refuses, he should use force against him for he is a satan.' "