باب:احرام والا شخص صرف نکاح (عقد) کر سکتا ہے حالت احرام میں اپنی بیوی سے جماع کرنا جائز نہیں ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: The marriage of Muhrim)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5154.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے احرام کی حالت میں نکاح کیا۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت احرام حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کیا اور شب زفاف کے وقت آپ احرام کی پابندیوں سے آزاد تھے اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کی وفات مقام سرف میں ہوئی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4258) ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ نکاح عمرۃ القضاء کے موقع پر ہوا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4259) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان جواز کی طرف معلوم ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے اس سلسلے میں منع کی کوئی حدیث ذکر نہیں کی صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت پر اکتفا کیا ہے جو جواز کے لیے واضح ہے۔ (فتح الباري: 207/9) (2) ہمارے رجحان کے مطابق احرام والا آدمی نہ تو خود نکاح کر سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے شخص ہی کا نکاح کرا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’احرام والا آدمی خود اپنا نکاح کرے، نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے اور نہ پیغام نکاح ہی بھیجے۔‘‘(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3449 (1409)) خود صاحب واقعہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی تو اس وقت ہم دونوں مقام سرف میں حلال تھے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1843) حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ جو ان دونوں کے درمیان قاصد تھے ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے، شب زفاف کے وقت بھی حلال تھے اور میں ان دونوں کے درمیان قاصد تھا۔ (جامع الترمذي، الحج، حدیث: 841) ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کسی وجہ سے وہم ہو گیا ہو جیسا کہ حضرت سعید بن مسیّب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وہم ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے حالت احرام میں شادی کی تھی۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1845) کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ تھیں، اس لیے وہ ان کا حال زیادہ جانتے تھے لیکن یزید بن اصم کی بھی خالہ تھیں، انھوں نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے نکاح بحالت حلال کیا تھا۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3453 (1411)) (3) ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک تقلید ہدی سے آدمی محرم بن جاتا ہو، جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنی قربانیوں کو ہار پہنا دیے ہیں تو اس سے قیاس کر لیا کہ آپ محرم ہیں، حالانکہ اس وقت آپ نے احرام نہیں باندھا تھا، بہر حال اہل حدیث حضرات کا موقف ہے کہ احرام والا آدمی نہ اپنا نکاح کرے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرائے اور نہ کسی کو پیغام نکاح ہی بھیجے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے ایک مرد اور عورت کو الگ الگ کر دیا تھا جنھوں نے احرام کی حالت میں نکاح کیا تھا۔ (فتح الباري: 208/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4917
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5114
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5114
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5114
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے احرام کی حالت میں نکاح کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت احرام حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے نکاح کیا اور شب زفاف کے وقت آپ احرام کی پابندیوں سے آزاد تھے اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کی وفات مقام سرف میں ہوئی۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4258) ایک دوسری روایت میں ہے کہ یہ نکاح عمرۃ القضاء کے موقع پر ہوا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4259) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا رجحان جواز کی طرف معلوم ہوتا ہے کیونکہ انھوں نے اس سلسلے میں منع کی کوئی حدیث ذکر نہیں کی صرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت پر اکتفا کیا ہے جو جواز کے لیے واضح ہے۔ (فتح الباري: 207/9) (2) ہمارے رجحان کے مطابق احرام والا آدمی نہ تو خود نکاح کر سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے شخص ہی کا نکاح کرا سکتا ہے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’احرام والا آدمی خود اپنا نکاح کرے، نہ کسی دوسرے کا نکاح کرے اور نہ پیغام نکاح ہی بھیجے۔‘‘(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3449 (1409)) خود صاحب واقعہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کا بیان ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی تو اس وقت ہم دونوں مقام سرف میں حلال تھے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1843) حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ جو ان دونوں کے درمیان قاصد تھے ان کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے، شب زفاف کے وقت بھی حلال تھے اور میں ان دونوں کے درمیان قاصد تھا۔ (جامع الترمذي، الحج، حدیث: 841) ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کسی وجہ سے وہم ہو گیا ہو جیسا کہ حضرت سعید بن مسیّب فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وہم ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے حالت احرام میں شادی کی تھی۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1845) کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ تھیں، اس لیے وہ ان کا حال زیادہ جانتے تھے لیکن یزید بن اصم کی بھی خالہ تھیں، انھوں نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما سے نکاح بحالت حلال کیا تھا۔ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3453 (1411)) (3) ممکن ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک تقلید ہدی سے آدمی محرم بن جاتا ہو، جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنی قربانیوں کو ہار پہنا دیے ہیں تو اس سے قیاس کر لیا کہ آپ محرم ہیں، حالانکہ اس وقت آپ نے احرام نہیں باندھا تھا، بہر حال اہل حدیث حضرات کا موقف ہے کہ احرام والا آدمی نہ اپنا نکاح کرے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرائے اور نہ کسی کو پیغام نکاح ہی بھیجے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے ایک مرد اور عورت کو الگ الگ کر دیا تھا جنھوں نے احرام کی حالت میں نکاح کیا تھا۔ (فتح الباري: 208/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان بن عیینہ نے خبر دی، کہا ہم کو عمرو بن دینار نے خبر دی، کہا ہم سے جابر بن زید نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عباس ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے (حضرت میمونہ ؓ سے) نکاح کیا اور اس وقت آپ احرام باندھے ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
سعید بن مسیب نے کہا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے غلطی کی۔ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے خود مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جس وقت نکاح کیا آپ احرام باندھے ہوئے نہ تھے اور ابو رافع اس نکاح میں وکیل تھے۔ ان سے ابن حبان اور ابن خزیمہ اور ترمذی نے روایت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے جب نکاح کیا اس وقت آپ حلال تھے۔ اب بعض الناس کا یہ کہنا کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا، ابن عباس کی خالہ تھیں وہ ان کا حال زیادہ جانتے تھے کچھ مفید نہیں کیونکہ یزید بن اصم کی بھی وہ خالہ تھیں اور انہوں نے خود حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی زبانی نقل کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا اس وقت آپ حلال تھے اور ممکن ہے کہ ابن عباس کے نزدیک تقلید ھدی سے آدمی محرم ہو جاتا ہو۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دیکھ کر کہ آپ نے ھدی کی تقلید سے قیاس کر لیا کہ آ پ محرم تھے حالانکہ آپ نے احرام نہیں باندھا تھا اور حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نے ايک مرد کو ایک عورت سے جدا کر دیا تھاجس نے حالت احرام میں نکاح کیا تھا۔ (وحیدی) اس مسئلہ میں اختلاف ہے شافعیہ اور اہلحدیث کا یہی قول ہے کہ محرم نہ اپنا نکاح کرے نہ کسی دوسرے کو نکاح کا پیغام بھیجے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA) : The Prophet (ﷺ) got married while he was in the state of Ihram.