صحیح بخاری
67. کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
35. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اور تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں کہ تم ان یعنی عدت میں بیٹھنے والی عورتوں سے پیغام نکاح کے بارے میں کوئی بات اشارہ سے کہو، یا (یہ ارادہ) اپنے دلوں میں ہی چھپا کر رکھو، اللہ کو تو علم ہے“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «غفور حليم» تک۔
باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اور تم پر کوئی گناہ اس میں نہیں کہ تم ان یعنی عدت میں بیٹھنے والی عورتوں سے پیغام نکاح کے بارے میں کوئی بات اشارہ سے کہو، یا (یہ ارادہ) اپنے دلوں میں ہی چھپا کر رکھو، اللہ کو تو علم ہے“ اللہ تعالیٰ کے ارشاد «غفور حليم» تک۔
)
Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: "And there is no sin on you if you make a hint of betrothal or conceal it in yourself...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
«أكننتم» بمعنی «اضمرتم» ہے یعنی ہر وہ چیز جس کی حفاظت کرو اور دل میں چھپاؤ وہ «مكنون» کہلاتی ہے۔
5164.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے درج زیک آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ایسی عورتوں کو اشارے کے ساتھ پیغام نکاح دو۔ یعنی میں شادی کا ارادہ رکھتا ہوں، میری آرزو ہے کہ مجھے نیک بیوی میسر ہو جائے۔ حضرت قاسم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: (کہ وہ کہے) بلاشبہ تو میرے ہاں قابل احترام اور معزز ہے۔ بے شک میں تیرے متعلق نیک جذبات رکھتا ہوں یقیناً اللہ تیری طرف خیرو برکت بھیجنے والا ہے۔ یا اس طرح کے اور الفاظ کہےحضرت عطاء نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: (نکاح کے لیے صرف) اشارہ کرے واضح طور پر نہ کہے، مثلاً یوں کہے: مجھے نکاح کی ضرورت ہے تو بڑی خوش قسمت ہے۔ الحمدللہ تم اچھی عورت ہو۔ اور عورت اس کے جواب کہے: جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں میں اسے سن رہی ہوں لیکن (صراحت کے ساتھ) کسی با ت کا وعدہ نہ کرے۔ عورت کا سر پرست بھی اس کے علم نے بغیر کوئی وعدہ نہ کرے، اگر کسی عورت نے دوران عدت میں کسی آدمی سے نکاح کا وعدہ کر لیا بعد میں اس کے ساتھ نکاح رچا لیا تو ان دونوں میں جدائی نہیں کرائی جائے گی، امام حسن بصری ؓ نے کہا: ”تم ان سے خفیہ معاہدہ نہ کرو۔“ اس سے مراد چھپ کر بد کاری کرنا ہے۔ سیدنا ابن عباس ؓ سے منقول ہے، آپ نے ﴿حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ﴾ کے متعلق فرمایا کہ اس سے مراد عورت کا اپنی عدت پوری کرلینا ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے دوران عدت میں عورت کو پیغام دینے یا نہ دینے کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت بیان کی ہے جبکہ مرفوع احادیث بھی کتب احادیث میں مروی ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما، جو آخری طلاق ملنے پر عدت کے ایام گزار رہی تھیں، سے فرمایا: ’’جب تمہارے عدت کے ایام گزر جائیں تو مجھے اطلاع دینا۔‘‘(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3697 (1480)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران عدت میں پیغام بھیجا: ’’اپنے متعلق میرے مشورے کے بغیر جلدی میں کوئی فیصلہ نہ کرلینا۔‘‘(سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2286) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: جو عورت بھی دوران عدت میں ہو اسے واضح طور پر پیغام نکاح دینا حرام ہے، خواہ عدت وفات میں ہو یا عدت طلاق میں۔ اور عدت طلاق خواہ رجعی ہو یا بائنہ۔ یہ حکم ہر قسم کی عورت سے متعلق ہے، البتہ اشارہ اور تعریض عدت وفات میں جائز ہے جبکہ رجعی طلاق کی عدت میں جائز نہیں۔ (فتح الباري: 224/9) مقصد یہ ہے کہ بیوہ عورت کو دوران عدت میں پیغام نکاح کا اشارہ تو دیا جا سکتا ہے مگر واضح الفاظ میں کوئی بات کرنا درست نہیں۔ عدت کے بعد وضاحت کے ساتھ گفتگو کی جا سکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی اجازت موجود ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4925
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5124
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5124
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5124
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
پوری آیت کا ترجمہ حسب ذیل ہے: "ایسی بیواؤں کو اگر تم اشارے کے ساتھ پیغام نکاح دےدو یا یہ بات اپنے دل میں چھپائے رکھو تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔اللہ جانتا ہے کہ تم انھیں(دل میں) ضرور یاد رکھو گے لیکن ان سے خفیہ معاہدہ نہ کرنا،ہاں جو بات کرنی ہو وہ معروف طریقے سے کرو مگر جب تک ان کی عدت نہ گزرجائے عقد نکاح کا عزم مت کرو اور جان لوکہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اسے جانتاہے،لہٰذا اس سے ڈرتے رہو اور یہ بھی جان لوکہ اللہ تعالیٰ بے حد معاف کرنے والا نہایت بردبار ہے۔"(البقرۃ: 2/235)اس آیت کریمہ میں چار احکام بیان ہوئے ہیں جن میں دوجائز اور دوناجائز ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭اشارے کے ساتھ پیغام نکاح دینا جائز ہے۔٭دل میں اس سے نکاح کی خواہش رکھنا بھی جائز ہے۔٭دوران عدت میں اس سے نکاح کرنا حرام ہے۔٭دوران عدت میں اس سے نکاح کرنا حرام ہے۔٭دوران عدت میں اس سے نکاح کا خفیہ معاہدہ کرنا بھی ناجائز ہے۔واضح رہے کہ یہ احکام اس عورت سے متعلق ہیں جس کا خاوند فوت ہوچکا ہو اور وہ عدت کے ایام گزار رہی ہو،البتہ جوعورت طلاق رجعی کی عدت میں ہو اس کے ساتھ اشارتاً بھی ایسی بات کرنا ناجائز اور حرام ہے جو نکاح یا عزم نکاح پر دلالت کرتی ہوں۔والله اعلم
«أكننتم» بمعنی «اضمرتم» ہے یعنی ہر وہ چیز جس کی حفاظت کرو اور دل میں چھپاؤ وہ «مكنون» کہلاتی ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے درج زیک آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ایسی عورتوں کو اشارے کے ساتھ پیغام نکاح دو۔ یعنی میں شادی کا ارادہ رکھتا ہوں، میری آرزو ہے کہ مجھے نیک بیوی میسر ہو جائے۔ حضرت قاسم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: (کہ وہ کہے) بلاشبہ تو میرے ہاں قابل احترام اور معزز ہے۔ بے شک میں تیرے متعلق نیک جذبات رکھتا ہوں یقیناً اللہ تیری طرف خیرو برکت بھیجنے والا ہے۔ یا اس طرح کے اور الفاظ کہےحضرت عطاء نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: (نکاح کے لیے صرف) اشارہ کرے واضح طور پر نہ کہے، مثلاً یوں کہے: مجھے نکاح کی ضرورت ہے تو بڑی خوش قسمت ہے۔ الحمدللہ تم اچھی عورت ہو۔ اور عورت اس کے جواب کہے: جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں میں اسے سن رہی ہوں لیکن (صراحت کے ساتھ) کسی با ت کا وعدہ نہ کرے۔ عورت کا سر پرست بھی اس کے علم نے بغیر کوئی وعدہ نہ کرے، اگر کسی عورت نے دوران عدت میں کسی آدمی سے نکاح کا وعدہ کر لیا بعد میں اس کے ساتھ نکاح رچا لیا تو ان دونوں میں جدائی نہیں کرائی جائے گی، امام حسن بصری ؓ نے کہا: ”تم ان سے خفیہ معاہدہ نہ کرو۔“ اس سے مراد چھپ کر بد کاری کرنا ہے۔ سیدنا ابن عباس ؓ سے منقول ہے، آپ نے ﴿حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ﴾ کے متعلق فرمایا کہ اس سے مراد عورت کا اپنی عدت پوری کرلینا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے دوران عدت میں عورت کو پیغام دینے یا نہ دینے کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت بیان کی ہے جبکہ مرفوع احادیث بھی کتب احادیث میں مروی ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما، جو آخری طلاق ملنے پر عدت کے ایام گزار رہی تھیں، سے فرمایا: ’’جب تمہارے عدت کے ایام گزر جائیں تو مجھے اطلاع دینا۔‘‘(صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3697 (1480)) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران عدت میں پیغام بھیجا: ’’اپنے متعلق میرے مشورے کے بغیر جلدی میں کوئی فیصلہ نہ کرلینا۔‘‘(سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2286) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: جو عورت بھی دوران عدت میں ہو اسے واضح طور پر پیغام نکاح دینا حرام ہے، خواہ عدت وفات میں ہو یا عدت طلاق میں۔ اور عدت طلاق خواہ رجعی ہو یا بائنہ۔ یہ حکم ہر قسم کی عورت سے متعلق ہے، البتہ اشارہ اور تعریض عدت وفات میں جائز ہے جبکہ رجعی طلاق کی عدت میں جائز نہیں۔ (فتح الباري: 224/9) مقصد یہ ہے کہ بیوہ عورت کو دوران عدت میں پیغام نکاح کا اشارہ تو دیا جا سکتا ہے مگر واضح الفاظ میں کوئی بات کرنا درست نہیں۔ عدت کے بعد وضاحت کے ساتھ گفتگو کی جا سکتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی اجازت موجود ہے۔
ترجمۃ الباب:
«اکنتم» کے معنیٰ ہیں: جو تم اپنے دلوں میں چھپا کر رکھو۔ ہروہ چیز جس کی تو نگہبانی کرے اور اسے چھپا کر رکھے وہ مکنون ہے
حدیث ترجمہ:
امام بخاری ؓ نے کہا مجھ سے طلق بن غنام نے بیان کیا، کہا ہم سے زائد ہ بن قدام نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے مجاہد نے کہ ابن عباس ؓ نے آیت ''فيما عرضتم'' کی تفسیر میں کہا کہ کوئی شخص کسی ایسی عورت سے جو عدت میں ہو کہے کہ میرا ارادہ نکاح کا ہے اور میری خواہش ہے کہ مجھے کوئی نیک بخت عورت میسر آ جائے اور اس نکاح میں قاسم بن محمد نے کہا کہ (تعریض یہ ہے کہ عدت میں عورت سے کہے کہ تم میری نظر میں بہت اچھی ہو اور میرا خیال نکاح کرنے کا ہے اور اللہ تمہیں بھلائی پہنچائے گا یا اسی طرح کے جملے کہے اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ تعریض و کنایہ سے کہے۔ صاف صاف نہ کہے (مثلاً) کہے کہ مجھے نکاح کی ضرورت ہے اور تمہیں بشارت ہو اوراللہ کے فضل سے اچھی ہو اور عورت اس کے جواب میں کہے کہ تمہاری بات میں نے سن لی ہے (بصراحت) کوئی وعدہ نہ کرے ایسی عورت کا ولی بھی اس کے علم کے بغیر کوئی وعدہ نہ کرے اور اگر عورت نے زمانہ عدت میں کسی مرد سے نکاح کا وعدہ کر لیا اورپھر بعد میں اس سے نکاح کیا تو دونوں میں جدائی نہیں کرائی جائے گی۔ حسن نے کہا کہ لاتواعدوھن سرا سے یہ مراد ہے کہ عورت سے چھپ کر بدکاری نہ کرو۔ ابن عباس ؓ سے منقول ہے کہ ''الکتاب أجله'' سے مراد عدت کا پورا کرنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
"Hint your intention of marrying' is made by saying (to the widow) for example: "I want to marry, and I wish that Allah will make a righteous lady available for me.' " Al-Qasim said: One may say to the widow: 'I hold all respect for you, and I am interested in you; Allah will bring you much good, or something similar 'Ata said: One should hint his intention, and should not declare it openly. One may say: 'I have some need. Have good tidings. Praise be to Allah; you are fit to remarry.' She (the widow) may say in reply: I am listening to what you say,' but she should not make a promise. Her guardian should not make a promise (to somebody to get her married to him) without her knowledge. But if, while still in the Iddat period, she makes a promise to marry somebody, and he ultimately marries her, they are not to be separated by divorce (i.e., the marriage is valid).