باب: نماز پڑھتے وقت ایک نمازی کا دوسرے شخص کی طرف رخ کرنا کیسا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: A man facing a man while offering Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عثمان ؓ نے ناپسند فرمایا کہ نمازی کے سامنے منہ کر کے بیٹھے۔ امام بخاری نے فرمایا کہ یہ کراہیت جب ہے کہ نمازی کا دل ادھر لگ جائے۔ اگر دل نہ لگے تو زید بن ثابت ؓ نے کہا کہ مجھے اس کی پروا نہیں۔ اس لیے کہ مرد کی نماز کو مرد نہیں توڑتا۔
517.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، ان کے سامنے تذکرہ ہوا کہ نماز کو کیا چیز توڑ دیتی ہے، لوگوں نے کہا: کتے، گدھے اور عورت کے (نمازی کے) سامنے سے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: تم لوگوں نے ہم عورتوں کو تو کتوں کے برابر بنا دیا ہے، حالانکہ میں نے نبی ﷺ کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان چار پائی پر لیٹی ہوتی تھی، پھر اگر مجھے کوئی ضرورت ہوتی اور میں بحالت نماز آپ کے سامنے آنے کو ناپسند سمجھتی تو آہستہ سے کھسک کر نکل جاتی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
506
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
511
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
511
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
511
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
اس عنوان میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی نمازی کی طرف رخ کر کے بیٹھ جائے یا کھڑا رہے تو اس کا کیا حکم ہے؟حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس صورت کو مکروہ خیال کیا ہے لیکن حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک اس صورت میں کوئی حرج نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان دونوں متضاد طرز عمل میں مطابقت پیدا فرماتے ہیں کہ مذکورہ ارشادات درست اور دو الگ الگ حالات سے متعلق ہیں۔ اگر سامنے آنے سے جمعیت خاطر منتشر ہوتی ہو تو مکروہ ہے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے اور اگر طبیعت میں انتشار پیدا نہ ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مجھے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طرز عمل کہیں نہیں ملا بلکہ مصنف عبدالرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک اثر ملا ہے کہ وہ اس اس قسم کی صورت استقبال پر زجرو تنبیہ فرمایا کرتے تھے۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک قول عدم کراہت کا ملا ہے، اس لیے ممکن ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جگہ غلطی سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہو گیا ہو۔یعنی عمر میں تصحیف ہوئی اور وہ عمر کے بجائے عثمان بن گیا ہے۔( فتح الباری:1/758۔)علامہ عینی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مطلقاً کراہت کا موقف ذکر کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سترے کے لیے اگر کوئی ستون نہ ملتا تو حضرت نافع سے کہتے کہ تم میری طرف اپنی پیٹھ کرو تاکہ میں نماز پڑھ لوں(عمدۃ القاری:1/596۔) یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے انداز کو ناپسند کیا جس میں کسی آدمی کا رخ نماز پڑھنے والے شخص کی طرف ہو کیونکہ اس صورت میں انتشار پیدا ہوتا ہے البتہ نمازی کی طرف پیٹھ کرنے یا ہونے میں ایسا خطرہ نہیں۔
اور حضرت عثمان ؓ نے ناپسند فرمایا کہ نمازی کے سامنے منہ کر کے بیٹھے۔ امام بخاری نے فرمایا کہ یہ کراہیت جب ہے کہ نمازی کا دل ادھر لگ جائے۔ اگر دل نہ لگے تو زید بن ثابت ؓ نے کہا کہ مجھے اس کی پروا نہیں۔ اس لیے کہ مرد کی نماز کو مرد نہیں توڑتا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، ان کے سامنے تذکرہ ہوا کہ نماز کو کیا چیز توڑ دیتی ہے، لوگوں نے کہا: کتے، گدھے اور عورت کے (نمازی کے) سامنے سے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: تم لوگوں نے ہم عورتوں کو تو کتوں کے برابر بنا دیا ہے، حالانکہ میں نے نبی ﷺ کو اس طرح نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان چار پائی پر لیٹی ہوتی تھی، پھر اگر مجھے کوئی ضرورت ہوتی اور میں بحالت نماز آپ کے سامنے آنے کو ناپسند سمجھتی تو آہستہ سے کھسک کر نکل جاتی۔
حضرت عثمان ؓ نے نمازی کی طرف رخ کر کے بیٹھنے کو ناپسند فرمایا۔ یہ اس صورت میں ہے جب نمازی کی توجہ سامنے والے کی طرف ہو جائے، لیکن اگر توجہ نہ ہو تو زید بن ثابت ؓ نے فرمایا: مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ ایک شخص دوسرے کی نماز کو نہیں توڑ سکتا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہرنے بیان کیا سلیمان اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے مسلم بن صبیح سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے کہ ان کے سامنے ذکر ہوا کہ نماز کو کیا چیزیں توڑ دیتی ہیں، لوگوں نے کہا کہ کتا، گدھا اور عورت (بھی) نماز کو توڑ دیتی ہے (جب سامنے آ جائے)۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ تم نے ہمیں کتوں کے برابر بنا دیا۔ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ نبی کریم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آپ کے اور آپ کے قبلہ کے درمیان (سامنے) چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔ مجھے ضرورت پیش آتی تھی اور یہ بھی اچھا نہیں معلوم ہوتا تھا کہ خود کو آپ کے سامنے کر دوں۔ اس لیے میں آہستہ سے نکل آتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عائشہ ؓ کے بیان میں الفاظ أکرہ أن أستقبله سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔ یعنی حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں آپ کے سامنے لیٹی رہتی تھی۔ مگرمیں اسے مکروہ جان کر ادھر ادھر سرک جایا کرتی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): The things which annul the prayers were mentioned before me. They said, "Prayer is annulled by a dog, a donkey and a woman (if they pass in front of the praying people)." I said, "You have made us (i.e. women) dogs. I saw the Prophet (ﷺ) praying while I used to lie in my bed between him and the Qibla. Whenever I was in need of something, I would slip away. For I disliked facing him."