تشریح:
1۔ اس سے پہلے بچی کا معاملہ تھا پاکی اور ناپاکی کا ذکر نہیں تھا اس باب میں بالغ عورت کا معاملہ ہے وہ بھی بحالت حیض نمازی کے قریب ہی یعنی اگر بالغ عورت اسی بستر پر ہو جس پر نمازی نماز پڑھ رہا ہے تو عورت سامنے ہو یا برابر حالت حیض میں ہو یا حالت طہر میں نمازی کی نماز میں کوئی نقصان نہیں آئے گا بلکہ اگر نمازی کے کپڑوں کا اتصال بھی عورت سے ہو جائے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں۔علامہ ابن بطال لکھتے ہیں کہ یہ حدیث اور سابقہ احادیث جن میں عورت کے نمازی اور قبلے کے درمیان لیٹنے کا ذکر ہے اس بات کی دلیل ہیں کہ عورت نمازی کے سامنے بیٹھ سکتی ہے مگر اس کا سامنے سے گزرنا توکسی حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔ حالانکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد مُرور(گزرنے) کا غیر قاطع ہونا ثابت کرنا ہے۔ (شرح ابن بطال: 2/ 145) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عنوان اس مقصد کے لیے نہیں ہے جو ابن بطال نے سمجھا ہے کیونکہ نمازی کے آگے لیٹنے کا مسئلہ تو پہلے بیان ہو چکا ہے اس مقام پر توصرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حائضہ عورت اگر نمازی کے پہلو میں ہو اور اس کا کپڑا بھی اسے چھورہا ہو تب بھی اس کی نماز میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اس میں یہ بیان نہیں ہے کہ حائضہ نمازی اور اس کے قبلے کے درمیان ہو کیونکہ (اليٰ فِرَاش) کا مطلب صرف سامنے ہونا ہی نہیں بلکہ اگر دائیں یا بائیں ہوتو بھی لفظ (اليٰ) استعمال کیا جا سکتا ہے علاوہ ازیں دوسری حدیث میں وضاحت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں لیٹی ہوئی تھیں۔ (فتح الباري: 1/ 766)
2۔ پہلی روایت میں "حیال" کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی مقابل اور سامنے کے ہیں لیکن دوسری روایت میں اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے لفظ جنب آیا ہے جس کے معنی پہلو کے ہیں اس لیے حیال کا مفہوم بھی بالکل مقابل یا سامنے ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر ترچھی ہو کر لیٹی ہو اور کچھ حصہ سامنے ہوتو اس پر لفظ "حیال" صادق آتا ہے اور "علی جنبه" بھی صادق آجائے گا اس سے معلوم ہوا کہ عورت محاذات میں ہو یا برابر میں حالت حیض میں ہو یا طہر میں خواہ نمازی کا کپڑا اسے مس بھی کر رہا ہو کسی بھی صورت میں نمازی کی نماز کے لیے نقصان دہ نہیں۔