Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: Al-Khutba (for Nikah))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5186.
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ دو آدمی مشرق کی جانب سے آئے اور ان دونوں نے (مؤثر) خطبہ پڑھا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”بعض بیان جادو اثر ہوتے ہیں۔ “
تشریح:
(1) ان میں سے ایک کا نام زبرقان بن بدر اور دوسرے کا عمرو بن اہتم تھا۔یہ دونوں بنو تمیم سے قبیلے سےتعلق رکھتے تھے۔ وہ نو ہجری میں مدینہ طیبہ آئے اور ان کا خطبہ کمال فصاحت و بلاغت پر مشتمل تھا۔ (عمدة القاري: 98/14) یہ دونوں حضرات اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حاجت کے وقت خطبہ پڑھنا عرب کے ہاں ایک قدیم رسم ہے تاکہ لوگوں کے دل مائل ہوں، غالباً اس لیے عقد نکاح کے وقت خطبہ خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اشارہ فرمایا ہے کہ خطبۂ نکاح بھی صاف صاف اور متوسط ہونا چاہیے۔ اس میں تکلف اور بناوٹ وغیرہ نہ ہو۔ اس سے مقصود کسی باطل کو ثابت کرنا نہ ہوجیسا کہ قوت گویائی میں ماہر لوگ کرتے ہیں۔ عقد نکاح کے وقت خطبے کا مقصد یہ ہو کہ لوگوں کے دل مانوس ہوں اور ان میں نفرت کے جذبات پیدا نہ ہوں۔ ایسے مواقع پر اچھا کلام باعث مسرت اور اثر انگیز ہوتا ہے۔ اس میں نکاح کی اہمیت و افادیت اور معاشرتی زندگی کے اصول و ضوابط بیان کیے جائیں۔ خطبۂ نکاح میں جن آیات قرآنیہ کا انتخاب کیا جاتا ہے ان میں یہی معاشرتی اصول بیان ہوئے ہیں۔ ہم ایسے موقع پر ان اصولوں کی خوب وضاحت کرتے ہیں۔ وہ اصول حسب ذیل ہیں: ٭ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ (آل عمران: 102) ٭ صلہ رحمی کی عادت اختیار کی جائے۔ (النساء: 1) ٭قول و گفتار میں دوغلہ پن نہ ہو بلکہ وہ قول سدید پر مشتمل ہو۔ (الأحزاب: 70) ٭کتب حدیث میں یہ خطبہ "خطبة الحاجة'' کے نام سے مروی ہے۔ (جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1105) (3) نکاح کے وقت خطبہ ضرروری نہیں کہ اس کے بغیر نکاح نہ ہوتا ہو بلکہ اہل علم نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔ والله اعلم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض اہل ظاہر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے ہاں نکاح کے لیے خطبہ شرط ہے اور اس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا لیکن یہ قول شاذ اور خلاف عقل و نقل ہے۔ (فتح الباري: 253/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4946
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5146
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5146
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5146
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ دو آدمی مشرق کی جانب سے آئے اور ان دونوں نے (مؤثر) خطبہ پڑھا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”بعض بیان جادو اثر ہوتے ہیں۔ “
حدیث حاشیہ:
(1) ان میں سے ایک کا نام زبرقان بن بدر اور دوسرے کا عمرو بن اہتم تھا۔یہ دونوں بنو تمیم سے قبیلے سےتعلق رکھتے تھے۔ وہ نو ہجری میں مدینہ طیبہ آئے اور ان کا خطبہ کمال فصاحت و بلاغت پر مشتمل تھا۔ (عمدة القاري: 98/14) یہ دونوں حضرات اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حاجت کے وقت خطبہ پڑھنا عرب کے ہاں ایک قدیم رسم ہے تاکہ لوگوں کے دل مائل ہوں، غالباً اس لیے عقد نکاح کے وقت خطبہ خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اشارہ فرمایا ہے کہ خطبۂ نکاح بھی صاف صاف اور متوسط ہونا چاہیے۔ اس میں تکلف اور بناوٹ وغیرہ نہ ہو۔ اس سے مقصود کسی باطل کو ثابت کرنا نہ ہوجیسا کہ قوت گویائی میں ماہر لوگ کرتے ہیں۔ عقد نکاح کے وقت خطبے کا مقصد یہ ہو کہ لوگوں کے دل مانوس ہوں اور ان میں نفرت کے جذبات پیدا نہ ہوں۔ ایسے مواقع پر اچھا کلام باعث مسرت اور اثر انگیز ہوتا ہے۔ اس میں نکاح کی اہمیت و افادیت اور معاشرتی زندگی کے اصول و ضوابط بیان کیے جائیں۔ خطبۂ نکاح میں جن آیات قرآنیہ کا انتخاب کیا جاتا ہے ان میں یہی معاشرتی اصول بیان ہوئے ہیں۔ ہم ایسے موقع پر ان اصولوں کی خوب وضاحت کرتے ہیں۔ وہ اصول حسب ذیل ہیں: ٭ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ (آل عمران: 102) ٭ صلہ رحمی کی عادت اختیار کی جائے۔ (النساء: 1) ٭قول و گفتار میں دوغلہ پن نہ ہو بلکہ وہ قول سدید پر مشتمل ہو۔ (الأحزاب: 70) ٭کتب حدیث میں یہ خطبہ "خطبة الحاجة'' کے نام سے مروی ہے۔ (جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1105) (3) نکاح کے وقت خطبہ ضرروری نہیں کہ اس کے بغیر نکاح نہ ہوتا ہو بلکہ اہل علم نے اسے مستحب قرار دیا ہے۔ والله اعلم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بعض اہل ظاہر کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے ہاں نکاح کے لیے خطبہ شرط ہے اور اس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا لیکن یہ قول شاذ اور خلاف عقل و نقل ہے۔ (فتح الباري: 253/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے کہا کہ میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ دو آدمی مدینہ کے مشرق کی طرف سے آئے، وہ مسلمان ہو گئے اور خطبہ دیا، نہایت فصیح و بلیغ۔ رسول اللہ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ بعض تقریر جادو کی اثر کرتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث لا کر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ نکاح کا خطبہ صاف صاف متوسط تقریر میں ہونا چاہئے نہ یہ کہ بڑے تکلف اور خوش تقریری کے ساتھ جس سے سامعین پر جادو کا اثر ہو اور خطبہ نکاح کے باب میں صریح حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی ہے جسے اصحاب سنن نے روایت کیا ہے لیکن حضرت امام بخاری رحمہ اللہ شاید اپنی شرط پر نہ ہونے سے اسے نہ لا سکے نکاح کا خطبہ مشہور یہ ہے: الحَمدُ لله نحمده نستعينُه و نَستغفِرُه، ونؤمن و نتوکل علیه و نعوذُ به من شُرورِ أنفُسِنا، مَن يهدِ اللهُ فلا مُضِلَّ له، ومن يُضلِلْ فلا هادِيَ له، وأشهَدُ أنْ لا إلهَ إلَّا اللهُ، وأشهَدُ أنَّ مُحمَّدًا عَبدُه ورَسولُه، يا أيُّها الذين آمَنوا اتَّقُوا اللَّهَ الَّذي تَساءَلونَ به والأرْحامَ إنَّ اللَّهَ كان عليكم رَقيبًا، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ[آل عمران: 102]، يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا))۔ تک پڑھ کر پھر قاضی ایجاب و قبول کرائے۔ (خطبہ میں مذکور لفظ ونؤمن و نتوکل علیه محل نظر ہیں یعنی یہ لفظ سنداً ثابت نہیں ہیں۔ اس طرح دوسری آیت جس سے سورۃ نساء کا آغاز ہوتا ہے، وہ پوری پڑھنی چاہیئے واللہ أعلم بالصواب۔ عبدالرشید تونسوی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : Two men came from the east and delivered speeches, and the Prophet (ﷺ) said, "Some eloquent speech has the in fluency of magic (e.g., some people refuse to do something and then a good eloquent speaker addresses them and then they agree to do that very thing after his speech). "