Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: Consummation of marriage during a journey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5199.
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مدینہ طیبہ اور خیبر کے درمیان تین دن تک قیام فرمایا۔ وہاں آپ نے سیدہ صفیہ بنت حیبی ؓ کے ساتھ خلوت فرمائی میں نے مسلمانوں کو آپ کے ولیمے میں بلایا لیکن اس دعوت میں روٹی اور گوشت نہیں تھا۔ آپ نے دسترخوان بچھانے کا حکم دیا اور اس پر کھجور، گھی اور پنیر رکھ دیا گیا۔ یہی آپ ﷺ کا ولیمہ تھا۔ مسلمانوں نے سیدہ صفیہ ؓ کے متعلق کہا کہ یہ امہات المومنین میں سے ہیں یا آپ نے انہیں لونڈی ہی رکھا ہے؟ چنانچہ انہوں نے (فیصلہ کرتے ہوئے) کہا: اگر آپ ﷺ نے ان کو پردے میں رکھا تو امہات المومنین میں سے ہیں اور اگر پردے میں نہ رکھا تو وہ آپ کی باندی ہیں۔ جب سفر کا آغاز ہوا تو آپ نے ان کے لیے اپنی سواری کے پیچھے جگہ بنائی اور ان کے لوگوں کے درمیان پردہ ڈال دیا۔
تشریح:
(1) عرب میں یہ رسم تھی کہ وہ شب زفاف کے وقت دلہا اور دلہن کے لیے ایک الگ خیمہ لگانے کا اہتمام کرتے تاکہ وہ اس میں خلوت کریں، اسے بنا سے تعبیر کیا جاتا۔ ویسے اس سے مراد جماع کرنا اور خلوت اختیار کرنا ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما کو آزاد کر کے اپنے حرم میں داخل فرمایا: دوران سفر میں آپ برابر تین دن تک ان کے پاس رہے کیونکہ وہ شوہر دیدہ تھیں۔ کنواری کے ساتھ ابتدا میں سات دن رہنے کی اجازت ہے، اس کے بعد باری کا اہتمام کیا جائے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ خاوند کے نکاح میں دوسری عورتیں بھی ہوں۔ اگر تنہا ایک ہی بیوی ہے تو پھر باری وغیرہ کے تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شادی کے موقع پر ولیمہ ہونا چاہیے تاکہ لوگوں میں نکاح کی شہرت ہو جائے۔ والله اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4959
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5159
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5159
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5159
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مدینہ طیبہ اور خیبر کے درمیان تین دن تک قیام فرمایا۔ وہاں آپ نے سیدہ صفیہ بنت حیبی ؓ کے ساتھ خلوت فرمائی میں نے مسلمانوں کو آپ کے ولیمے میں بلایا لیکن اس دعوت میں روٹی اور گوشت نہیں تھا۔ آپ نے دسترخوان بچھانے کا حکم دیا اور اس پر کھجور، گھی اور پنیر رکھ دیا گیا۔ یہی آپ ﷺ کا ولیمہ تھا۔ مسلمانوں نے سیدہ صفیہ ؓ کے متعلق کہا کہ یہ امہات المومنین میں سے ہیں یا آپ نے انہیں لونڈی ہی رکھا ہے؟ چنانچہ انہوں نے (فیصلہ کرتے ہوئے) کہا: اگر آپ ﷺ نے ان کو پردے میں رکھا تو امہات المومنین میں سے ہیں اور اگر پردے میں نہ رکھا تو وہ آپ کی باندی ہیں۔ جب سفر کا آغاز ہوا تو آپ نے ان کے لیے اپنی سواری کے پیچھے جگہ بنائی اور ان کے لوگوں کے درمیان پردہ ڈال دیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) عرب میں یہ رسم تھی کہ وہ شب زفاف کے وقت دلہا اور دلہن کے لیے ایک الگ خیمہ لگانے کا اہتمام کرتے تاکہ وہ اس میں خلوت کریں، اسے بنا سے تعبیر کیا جاتا۔ ویسے اس سے مراد جماع کرنا اور خلوت اختیار کرنا ہے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہما کو آزاد کر کے اپنے حرم میں داخل فرمایا: دوران سفر میں آپ برابر تین دن تک ان کے پاس رہے کیونکہ وہ شوہر دیدہ تھیں۔ کنواری کے ساتھ ابتدا میں سات دن رہنے کی اجازت ہے، اس کے بعد باری کا اہتمام کیا جائے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ خاوند کے نکاح میں دوسری عورتیں بھی ہوں۔ اگر تنہا ایک ہی بیوی ہے تو پھر باری وغیرہ کے تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شادی کے موقع پر ولیمہ ہونا چاہیے تاکہ لوگوں میں نکاح کی شہرت ہو جائے۔ والله اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے خبر دی، انہیں حمید نے اور ان سے حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مدینہ اور خیبر کے درمیان (راستہ میں) تین دن تک قیام کیا اور وہاں ام المؤمنین حضرت صفیہ بنت حیی ؓ کے ساتھ خلوت کی۔ میں نے مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ کے ولیمہ پر بلایا لیکن اس دعوت میں روٹی اور گوشت نہیں تھا۔ آپ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور اس پر کھجور، پنیر اور گھی رکھ دیا گیا اور یہی آنحضرت ﷺ کا ولیمہ تھا۔ مسلمانوں نے حضرت صفیہ ؓ کے بارے میں (کہا کہ) امہات المؤمنین میں سے ہیں یا آنحضرت ﷺ نے انہیں لونڈی ہی رکھا ہے (کیونکہ وہ بھی جنگ خیبر کے قیدیوں میں سے تھیں۔ اس پر بعض نے کہا کہ اگرآنحضرت ﷺ ان کے لئے پردہ کرائیں پھر تووہ امہات المؤمنین میں سے ہیں اور اگر آپ ان کے لئے پردہ نہ کرائیں تو پھر وہ لونڈی کی حیثیت سے ہیں۔ جب سفر ہوا تو آنحضرت ﷺ نے ان کے لئے اپنی سواری پر پیچھے جگہ بنائی اور لوگوں کے اور ان کے درمیان پردہ ڈلوایا۔
حدیث حاشیہ:
جس سے لوگوں نے جان لیا کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حرم میں داخل فرما لیا اور آپ کو آزاد کر کے آپ سے شادی کر لی ہے۔ آپ تین دن برابر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہے کیونکہ وہ ثیبہ تھیں۔ باکرہ کے پاس دولہا سات دن تک رہ سکتا ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ اس کے نکاح میں دوسری عورتیں بھی ہوں اس کے بعد وہ باری مقرر کرے گا تنہا ایک ہی عورت ہے تو اس کے لئے کوئی قید نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : The Prophet (ﷺ) stayed for three days at a place between Khaibar and Medina, and there he consummated his marriage with Safiyya bint Huyay. I invited the Muslims to a banquet which included neither meat nor bread. The Prophet (ﷺ) ordered for the leather dining sheets to be spread, and then dates, dried yogurt and butter were provided over it, and that was the Walima (banquet) of the Prophet. The Muslims asked whether Safiyya would be considered as his wife or as a slave girl of what his right hands possessed. Then they said, "If the Prophet (ﷺ) screens her from the people, then she Is the Prophet's wife but if he does not screen her, then she is a slave girl." So when the Prophet (ﷺ) proceeded, he made a place for her (on the camel) behind him and screened her from people.