تشریح:
1۔ اس سے پہلے ابواب میں معاصی پر اصرار اورحبط اعمال سے ڈرایا گیا ہے۔ اب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے طریقے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جس کے اختیار کرنے سے انسان حبط اعمال سے محفوظ رہ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے تقویٰ اختیار کرنا اورمشتبہات سے اجتناب کرنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ اور ورع بھی ایمان کا حصہ ہیں۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی حلت وحرمت کا فیصلہ دشوارہوتاہے۔ یہ مشتبہات میں داخل ہیں۔ ان سے اجتناب کرنے میں دین اورآبرو کی حفاظت ہے۔ اہل تقویٰ مشتبہات کو محرمات کا زینہ خیال کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مشتبہ چیزوں سے مراد وہ پچیدہ معاملات ہیں کہ ان پر یقینی طور پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ اگرچہ اہل علم کسی حد تک ان سے باخبر ہوتے ہیں، تاہم یہ شکوک وشبہات سے خالی نہیں ہوتے۔
2۔ علماء کااتفاق ہے کہ اسلام کا دارومدار تین احادیث پر ہے: ایک مذکورہ حدیث، دوسری نیت سے متعلقہ اور تیسری وہ جس میں ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کاموں اورفضول باتوں سے پرہیز کرے۔ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے ایک چوتھی حدیث کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ کیونکہ مذکورہ حدیث میں خورونوش، لباس ونکاح کے حلال ہونے کی وضاحت ہے پھر اسے مشتبہات سے الگ رہنے کے متعلق کہا گیا ہے کیونکہ اس سے اس کا دین اور آبرو محفوظ رہتی ہے، پھر اسے ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے۔ (شرح الکرماني: 203/1) عرب کے ہاں یہ دستورتھا کہ وہ بڑے بڑے زرخیز خطے اپنے جانوروں کے لیے مخصوص کرلیتے تھے۔ انھی خطوں کو حمیٰ کہا جاتا تھا۔ سرکاری حمیٰ محرمات ہیں اور ان کا ماحول (اردگرد) مشتبہات ہیں جو بہت پرفریب ہوتی ہیں۔حدیث میں اس کو بطور مثال بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان نے اپنےنفس کومشتبہات کے لیے آزاد چھوڑدیا تو وہ یقیناً محرمات میں جا سکتا ہے۔ ان سے بچنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز میں اتنی گنجائش رکھ دی ہے کہ محرمات کی طرف آنے کی ضرورت نہیں۔ اب اتنی چیزوں کی حلت کے باوجود کوئی ان کی طرف جاتا ہے تو خباثتِ نفس کی انتہا ہے۔
3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باطنی صلاح وفساد کا دارومدار انسان کے دل پر ہے۔ جس شخص کے دل میں بگاڑ ہوگا اس کے دیگر اعضاء سے صادر ہونے والے اعمال بھی اس کے آئینہ دار ہوں گے۔ اس کے ساتھ ایمان کا تعلق ہے اور یہی محل نیت ہے۔ حلال وحرام اورمشتبہات میں فیصلے کے لیے بھی دل ہی رہنمائی کرتا ہے، لہٰذا اسے درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگردل درست ہے تو اس پیچیدہ معاملات میں فتویٰ لینے کی تلقین کی گئی ہے۔ طبی لحاظ سے بھی اعضاء کی صحت وسقم کا مداردل پر ہے۔ اگراس میں بگاڑ آجائے تو پورا نظام جسم بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔
4۔ صلاح قلب کی صورت یہ ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل چیزیں پیدا ہوجائیں: اللہ کی محبت، رضا بالقضاء، توکل علی اللہ، صبروشکر، رجا وخوف، فکرآخرت، توبہ وانابت اور قناعت و تواضع۔ فساد قلب کی صورت یہ ہے کہ اس میں درج ذیل اشیاء آجائیں، تکبر وغرور، خود پسندی، حسد وحقد، حب مال وجاہ، بخل وحرص، طول امل(لمبی امیدیں) اور لا یعنی گفتگو۔
5۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ ورع وپرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے اعمال میں سے ہے اور اس میں مراتب ہیں، لہٰذا ایمان ودین میں بھی مراتب ہیں، ایمان کے لیے ان کا بجا لانا اس کے ثمر آور ہونے کا باعث ہے اور ان کا ترک کردینا ایمان کو کمزور کردینے کے مترادف ہے۔