باب:اس شخص کی فضیلت کے بیان میں جو اپنا دین قائم رکھنے کے لئے گناہ سے بچ گیا
)
Sahi-Bukhari:
Belief
(Chapter: The superiority of that person who leaves all doubtful (unclear) things for the sake of his religion)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
52.
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے، چنانچہ جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لیا اور جو کوئی ان مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہو گیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو شاہی چراگاہ کے آس پاس (اپنے جانوروں کو) چرائے، قریب ہے کہ چراگاہ کے اندر اس کا جانور گھس جائے۔ آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار! اللہ کی چراگاہ اس کی زمین میں حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سن لو! بدن میں ایک ٹکڑا (گوشت کا) ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو سارا بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو! وہ ٹکڑا دل ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ اس سے پہلے ابواب میں معاصی پر اصرار اورحبط اعمال سے ڈرایا گیا ہے۔ اب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے طریقے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جس کے اختیار کرنے سے انسان حبط اعمال سے محفوظ رہ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے تقویٰ اختیار کرنا اورمشتبہات سے اجتناب کرنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ اور ورع بھی ایمان کا حصہ ہیں۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی حلت وحرمت کا فیصلہ دشوارہوتاہے۔ یہ مشتبہات میں داخل ہیں۔ ان سے اجتناب کرنے میں دین اورآبرو کی حفاظت ہے۔ اہل تقویٰ مشتبہات کو محرمات کا زینہ خیال کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مشتبہ چیزوں سے مراد وہ پچیدہ معاملات ہیں کہ ان پر یقینی طور پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ اگرچہ اہل علم کسی حد تک ان سے باخبر ہوتے ہیں، تاہم یہ شکوک وشبہات سے خالی نہیں ہوتے۔ 2۔ علماء کااتفاق ہے کہ اسلام کا دارومدار تین احادیث پر ہے: ایک مذکورہ حدیث، دوسری نیت سے متعلقہ اور تیسری وہ جس میں ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کاموں اورفضول باتوں سے پرہیز کرے۔ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے ایک چوتھی حدیث کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ کیونکہ مذکورہ حدیث میں خورونوش، لباس ونکاح کے حلال ہونے کی وضاحت ہے پھر اسے مشتبہات سے الگ رہنے کے متعلق کہا گیا ہے کیونکہ اس سے اس کا دین اور آبرو محفوظ رہتی ہے، پھر اسے ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے۔ (شرح الکرماني: 203/1) عرب کے ہاں یہ دستورتھا کہ وہ بڑے بڑے زرخیز خطے اپنے جانوروں کے لیے مخصوص کرلیتے تھے۔ انھی خطوں کو حمیٰ کہا جاتا تھا۔ سرکاری حمیٰ محرمات ہیں اور ان کا ماحول (اردگرد) مشتبہات ہیں جو بہت پرفریب ہوتی ہیں۔حدیث میں اس کو بطور مثال بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان نے اپنےنفس کومشتبہات کے لیے آزاد چھوڑدیا تو وہ یقیناً محرمات میں جا سکتا ہے۔ ان سے بچنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز میں اتنی گنجائش رکھ دی ہے کہ محرمات کی طرف آنے کی ضرورت نہیں۔ اب اتنی چیزوں کی حلت کے باوجود کوئی ان کی طرف جاتا ہے تو خباثتِ نفس کی انتہا ہے۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باطنی صلاح وفساد کا دارومدار انسان کے دل پر ہے۔ جس شخص کے دل میں بگاڑ ہوگا اس کے دیگر اعضاء سے صادر ہونے والے اعمال بھی اس کے آئینہ دار ہوں گے۔ اس کے ساتھ ایمان کا تعلق ہے اور یہی محل نیت ہے۔ حلال وحرام اورمشتبہات میں فیصلے کے لیے بھی دل ہی رہنمائی کرتا ہے، لہٰذا اسے درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگردل درست ہے تو اس پیچیدہ معاملات میں فتویٰ لینے کی تلقین کی گئی ہے۔ طبی لحاظ سے بھی اعضاء کی صحت وسقم کا مداردل پر ہے۔ اگراس میں بگاڑ آجائے تو پورا نظام جسم بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ 4۔ صلاح قلب کی صورت یہ ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل چیزیں پیدا ہوجائیں: اللہ کی محبت، رضا بالقضاء، توکل علی اللہ، صبروشکر، رجا وخوف، فکرآخرت، توبہ وانابت اور قناعت و تواضع۔ فساد قلب کی صورت یہ ہے کہ اس میں درج ذیل اشیاء آجائیں، تکبر وغرور، خود پسندی، حسد وحقد، حب مال وجاہ، بخل وحرص، طول امل(لمبی امیدیں) اور لا یعنی گفتگو۔ 5۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ ورع وپرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے اعمال میں سے ہے اور اس میں مراتب ہیں، لہٰذا ایمان ودین میں بھی مراتب ہیں، ایمان کے لیے ان کا بجا لانا اس کے ثمر آور ہونے کا باعث ہے اور ان کا ترک کردینا ایمان کو کمزور کردینے کے مترادف ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
52
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
52
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
52
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
52
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی عظمت وصداقت ثابت کرنے کے بعد ضروری خیال کیا کہ اب اساس دین یعنی ایمان کی وضاحت کی جائے جو عبادات کی صحت وقبولیت کے لیے مدار اور اخروی نجات کے لیے شرط اول ہے۔ چنانچہ کتاب الایمان میں ایمان ہی سے متعلقہ احادیث ہوں گی۔لفظ ایمان امن سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی امن واطمینان ہیں، اسی لغوی معنی کے پیش نظر مومن اسے کہاجاتا ہے جس سے لوگ اپنی جان ومال کے متعلق سکون و اطمینان محسوس کریں۔حدیث میں ہے۔(۔۔۔۔۔مَنْ أَمِنَهُ الْمُؤْمِنُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ )( مسند احمد 2/206۔)"(مومن وہ ہے)جس سے دوسرے مومن اپنی جان و مال کے متعلق بے خوف ہوں۔"اسی طرح یہ تصدق کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَمَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِينَ)( المومنون:23۔38۔)"ہم اس کی تصدیق کرنے والے نہیں ہیں۔" کسی کی بات پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسےاپنی تکذیب کی طرف سے مطمئن کرتے ہیں اور اس کی ا مانت ودیانت پر اپنے اعتماد ووثوق کا اظہار کرتے ہیں۔ایمان کی شرعی تعریف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ بھی اپنے رب کی طرف سے اصول وراکان اور احکام ومسائل لے کر آئے ہیں ان کی تصدیق کی جائے اور ان کی سچائی کو دل میں بٹھایا جائے۔، پھر زبان سے اس کی تصدیق کا اظہار اور اپنے دیگر اعضاء سے اس کا عملی ثبوت مہیا کیا جائے۔ گویا اس کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ دل سے تصدیق زبان سے اقرار اور دیگراعضاء سے التزام عمل ومتابعت یہود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت و تصدیق تھی اور منافقین میں بظاہر التزام عمل و متابعت بھی موجود تھا اس کے باوجود مومن نہیں ہیں، لہٰذا تصدیق میں کوتاہی کا مرتکب منافق اور اقرار سے پہلو تہی کفر کا باعث ہے جبکہ عملی کوتا ہی کا مرتکب فاسق ہے۔ اگر انکار کی وجہ سے بدعملی کا شکار ہے تو بھی اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ایسے حالات میں تصدیق واقرار کا کوئی فائدہ نہیں۔سلف صالحین کا نقطہ نظر بھی یہی ہے کہ ایمان کے متعلق جو آیات واحادیث وارد ہیں ان کی اتباع کو کافی خیال کیا جائے۔ان مباحث کلامیہ کی طرف قطعی التفات نہ کیا جائے جو متاخرین کے"دست ہنر شناس"کا کرشمہ ہیں۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ چونکہ سر رشتہ محدثین سے منسلک ہیں، اس لیے انھوں نے ایمان سے متعلق وارد شدہ قرآنی آیات اور احادیث و آثار کے پیش نظر اس موقف کواختیار کیا ہے کہ ایمان بسیط نہیں بلکہ تصدیق قلبی اقرار لسانی اور عمل بدنی سے مرکب ہے۔ تکون کے یہ تینوں زاویے اس قدر لازم ملزوم اور باہم مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو الگ کر دیا جائے تو ایسا حقیقی ایمان باقی نہیں رہتا جس سے اخروی نجات کا حصول ممکن ہو۔ اس کے بعض اجزاء اساسی اور بنیادی ہیں جنھیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ارکان اسلام کے نام سے تعبیر کر کے انہیں اولیت دی ہے اور کچھ اجزاء کمال ہیں جنھیں "امور ایمان" کا عنوان دے کر آخر میں بیان کیا ہے قارئین کرام اس تفصیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب الایمان کا مطالعہ کریں۔
حضرت نعمان بن بشیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: ’’حلال ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جنہیں اکثر لوگ نہیں جانتے، چنانچہ جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لیا اور جو کوئی ان مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہو گیا اس کی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو شاہی چراگاہ کے آس پاس (اپنے جانوروں کو) چرائے، قریب ہے کہ چراگاہ کے اندر اس کا جانور گھس جائے۔ آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار! اللہ کی چراگاہ اس کی زمین میں حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سن لو! بدن میں ایک ٹکڑا (گوشت کا) ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو سارا بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو! وہ ٹکڑا دل ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس سے پہلے ابواب میں معاصی پر اصرار اورحبط اعمال سے ڈرایا گیا ہے۔ اب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک ایسے طریقے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں جس کے اختیار کرنے سے انسان حبط اعمال سے محفوظ رہ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے دین کی حفاظت کے لیے تقویٰ اختیار کرنا اورمشتبہات سے اجتناب کرنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ اور ورع بھی ایمان کا حصہ ہیں۔ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کی حلت وحرمت کا فیصلہ دشوارہوتاہے۔ یہ مشتبہات میں داخل ہیں۔ ان سے اجتناب کرنے میں دین اورآبرو کی حفاظت ہے۔ اہل تقویٰ مشتبہات کو محرمات کا زینہ خیال کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مشتبہ چیزوں سے مراد وہ پچیدہ معاملات ہیں کہ ان پر یقینی طور پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ اگرچہ اہل علم کسی حد تک ان سے باخبر ہوتے ہیں، تاہم یہ شکوک وشبہات سے خالی نہیں ہوتے۔ 2۔ علماء کااتفاق ہے کہ اسلام کا دارومدار تین احادیث پر ہے: ایک مذکورہ حدیث، دوسری نیت سے متعلقہ اور تیسری وہ جس میں ہے کہ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ لایعنی کاموں اورفضول باتوں سے پرہیز کرے۔ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے ایک چوتھی حدیث کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ کیونکہ مذکورہ حدیث میں خورونوش، لباس ونکاح کے حلال ہونے کی وضاحت ہے پھر اسے مشتبہات سے الگ رہنے کے متعلق کہا گیا ہے کیونکہ اس سے اس کا دین اور آبرو محفوظ رہتی ہے، پھر اسے ایک مثال سے سمجھایا گیا ہے۔ (شرح الکرماني: 203/1) عرب کے ہاں یہ دستورتھا کہ وہ بڑے بڑے زرخیز خطے اپنے جانوروں کے لیے مخصوص کرلیتے تھے۔ انھی خطوں کو حمیٰ کہا جاتا تھا۔ سرکاری حمیٰ محرمات ہیں اور ان کا ماحول (اردگرد) مشتبہات ہیں جو بہت پرفریب ہوتی ہیں۔حدیث میں اس کو بطور مثال بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان نے اپنےنفس کومشتبہات کے لیے آزاد چھوڑدیا تو وہ یقیناً محرمات میں جا سکتا ہے۔ ان سے بچنا ضروری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز میں اتنی گنجائش رکھ دی ہے کہ محرمات کی طرف آنے کی ضرورت نہیں۔ اب اتنی چیزوں کی حلت کے باوجود کوئی ان کی طرف جاتا ہے تو خباثتِ نفس کی انتہا ہے۔ 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باطنی صلاح وفساد کا دارومدار انسان کے دل پر ہے۔ جس شخص کے دل میں بگاڑ ہوگا اس کے دیگر اعضاء سے صادر ہونے والے اعمال بھی اس کے آئینہ دار ہوں گے۔ اس کے ساتھ ایمان کا تعلق ہے اور یہی محل نیت ہے۔ حلال وحرام اورمشتبہات میں فیصلے کے لیے بھی دل ہی رہنمائی کرتا ہے، لہٰذا اسے درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگردل درست ہے تو اس پیچیدہ معاملات میں فتویٰ لینے کی تلقین کی گئی ہے۔ طبی لحاظ سے بھی اعضاء کی صحت وسقم کا مداردل پر ہے۔ اگراس میں بگاڑ آجائے تو پورا نظام جسم بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ 4۔ صلاح قلب کی صورت یہ ہے کہ اس میں مندرجہ ذیل چیزیں پیدا ہوجائیں: اللہ کی محبت، رضا بالقضاء، توکل علی اللہ، صبروشکر، رجا وخوف، فکرآخرت، توبہ وانابت اور قناعت و تواضع۔ فساد قلب کی صورت یہ ہے کہ اس میں درج ذیل اشیاء آجائیں، تکبر وغرور، خود پسندی، حسد وحقد، حب مال وجاہ، بخل وحرص، طول امل(لمبی امیدیں) اور لا یعنی گفتگو۔ 5۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ ورع وپرہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے اعمال میں سے ہے اور اس میں مراتب ہیں، لہٰذا ایمان ودین میں بھی مراتب ہیں، ایمان کے لیے ان کا بجا لانا اس کے ثمر آور ہونے کا باعث ہے اور ان کا ترک کردینا ایمان کو کمزور کردینے کے مترادف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے، انھوں نے عامر سے، کہا میں نے نعمان بن بشیر ؓ سے سنا، وہ کہتے تھے میں نے آنحضرتﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے حلال کھلا ہوا ہے اور حرام بھی کھلا ہوا ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت لوگ نہیں جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو (شاہی محفوظ) چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔ وہ قریب ہے کہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائے (اور شاہی مجرم قرار پائے) سن لو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں۔ (پس ان سے بچو اور) سن لو بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔
حدیث حاشیہ:
باب کے منعقد کرنے سے حضرت امام کا مقصد یہ ہے کہ ورع پر ہیزگاری بھی ایمان کو کامل کرنے والے عملوں میں سے ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی بنا پر ہمارا مذہب یہی ہے کہ قلب ہی عقل کا مقام ہے اور فرماتے ہیں: "قد أجمع العلماء على عظم موقع هذا الحديث وأنه أحد الأحاديث الأربعة التي عليها مدار الإسلام المنظومة في قوله:
عمدة الدين عندنا كلمات مسندات من قول خير البرية
اتق اشبه وازهدن ودع ما ليس يعينك واعملن بنية
یعنی اس حدیث کی عظمت پر علماء کا اتفاق ہے اور یہ ان چار احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا مدارہے جیسا کہ اس رباعی میں ہے کہ دین سے متعلق ارشادات نبوی کے یہ چندکلمات ہمارے نزدیک دین کی بنیاد ہیں۔ شبہ کی چیزوں سے بچو، دنیا سے بے رغبتی اختیا کرو، فضولیات سے بچو اور نیت کے مطابق عمل کرو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated An-Nu'man bin Bashir (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, 'Both legal and illegal things are evident but in between them there are doubtful (suspicious) things and most of the people have no knowledge about them. So whoever saves himself from these suspicious things saves his religion and his honor. And whoever indulges in these suspicious things is like a shepherd who grazes (his animals) near the Hima (private pasture) of someone else and at any moment he is liable to get in it. (O people!) Beware! Every king has a Hima and the Hima of Allah on the earth is His illegal (forbidden) things. Beware! There is a piece of flesh in the body if it becomes good (reformed) the whole body becomes good but if it gets spoilt the whole body gets spoilt and that is the heart.