Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: The giving of a present to the bridegroom)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5203.
سیدنا ابو عثمان ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدنا انس ؓ کا ہمارے سامنے سے بنو رفاعہ کی مسجد سے گزر ہوا، میں نے سنا آپ فرما رہے تھے کہ نبی ﷺ کا معمول تھا آپ جب بھی سیدنا ام سلیم ؓ کے گھر کی طرف سے گزرتے تو ان کے پاس جاتے اور انہیں سلام کرتے۔ اس کے بعد سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب سیدہ زینب ؓ کے دلھا بنے تو مجھے (میری والدہ) ام سلیم ؓ نے کہا: اس وقت ہم رسول اللہ ﷺ کو کوئی تحفہ بھیجیں تو بہتر ہے۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے ضرور بھیجیں چنانچہ انہوں نے کھجور، گھی، اور پنیر ملا کر ایک ہانڈی میں حلوہ بنایا اور مجھے دے کر آپ ﷺ کے پاس روانہ کیا۔ جب وہاں پہنچا تو آپ نے فرمایا: ”اسے رکھ دو۔“ پھر حکم دیا ”فلاں فلاں لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ ۔ ۔ “ آپ نے ان کا نام لیا۔ ۔ ۔ اور جو بی آدمی تجھے راستے میں ملے اسے میری طرف سے دعوت دے دو۔“ چنانچہ مجھے آپ نے جو حکم دیا تھا میں نے اس کی تعمیل کی۔ جب میں واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں سے گھر بھرا ہوا ہے میں نے نبی ﷺ جو دیکھا کہ آپ نے دونوں ہاتھ اس حلوے پر رکھ دیے اور جو اللہ کو منظور تھا وہ اپنی زبان سے پڑھا، اس کے بعد دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلانا شروع کیا۔ آپ ان سے فرماتے تھے: ”اللہ کا نام لے کر ہر آدمی آپنے آگے سے کھائے۔“ بہر حال سب لوگ کھا کر گھرسے باہر چل دیے، البتہ تین آدمی گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے اور مجھے ان کے نہ جانے سے رنج پیدا ہوا آخر کار نبی ﷺ اپنی بیویوں کے حجروں کی طرف گئے، میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا، میں نے (آپ سے ﷺ سے) کہا: لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں اس وقت آپ واپس آ کر گھر میں داخل ہوئے اور پردہ لٹکا دیا۔ میں ابھی حجرے ہی میں تھا آپ (سورہ احزاب) کی یہ آیات پڑھ رہے تھے۔ ”اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر جب کھانے کے لیے اندر آنے کی اجازت دی جائے، وہاں بیٹھ کر کھانا پکنے کا انتظار نہ کرو، البتہ جب تمہیں بلایا جائے تو اندر جاؤ اور کھانے سے فارغ ہوتے ہی واپس چلے آؤ، باتوں میں لگ کر وہاں بیٹھے نہ رہو، یہ بات نبی کو تکلیف دیتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالٰی حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔“ ابو عثمان کہتے ہیں کہ سیدنا انس ؓ فرمایا کرتے تھے: بے شک میں نے دس سال تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت انجام دی ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ دلھا اور دلھن کو تحائف بھیجنا مستحب ہے۔ اسلام سے پہلے بھی انھیں شادی کے موقع پر تحائف بھیجے جاتے تھے۔ اسلام نے دور جاہلیت کی اس رسم کو برقرار رکھا اور اسے پسندیدہ قرار دیا ہے۔ تحفہ اگرچہ مقدار میں کم ہو وہ محبت اور الفت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے ذریعے سے بے تکلفی کو فروغ ملتا ہے جو آپس کے میل جول کی بنیاد ہے۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہما نے اسی اصول کے مطابق قلیل مقدار میں تحفہ بھیجا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں خوب خوب برکت ڈال دی۔ (2) بعض حضرات نے اس حدیث کے متعلق ایک اشکال ظاہر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ولیمے پر گوشت اور روٹی کھلائی تھی جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ نے ام سلیم رضی اللہ عنہما کے حلوے سے ولیمے کی دعوت کی؟ دراصل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گوشت اور روٹی کھانے کے دوران میں ہی حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کی طرف سے حلوہ آ گیا جو سویٹ ڈش کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس بنا پر ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ (فتح الباري: 283/9) و اللہ اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4963
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5163
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5163
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5163
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
سیدنا ابو عثمان ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدنا انس ؓ کا ہمارے سامنے سے بنو رفاعہ کی مسجد سے گزر ہوا، میں نے سنا آپ فرما رہے تھے کہ نبی ﷺ کا معمول تھا آپ جب بھی سیدنا ام سلیم ؓ کے گھر کی طرف سے گزرتے تو ان کے پاس جاتے اور انہیں سلام کرتے۔ اس کے بعد سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب سیدہ زینب ؓ کے دلھا بنے تو مجھے (میری والدہ) ام سلیم ؓ نے کہا: اس وقت ہم رسول اللہ ﷺ کو کوئی تحفہ بھیجیں تو بہتر ہے۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے ضرور بھیجیں چنانچہ انہوں نے کھجور، گھی، اور پنیر ملا کر ایک ہانڈی میں حلوہ بنایا اور مجھے دے کر آپ ﷺ کے پاس روانہ کیا۔ جب وہاں پہنچا تو آپ نے فرمایا: ”اسے رکھ دو۔“ پھر حکم دیا ”فلاں فلاں لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ ۔ ۔ “ آپ نے ان کا نام لیا۔ ۔ ۔ اور جو بی آدمی تجھے راستے میں ملے اسے میری طرف سے دعوت دے دو۔“ چنانچہ مجھے آپ نے جو حکم دیا تھا میں نے اس کی تعمیل کی۔ جب میں واپس آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں سے گھر بھرا ہوا ہے میں نے نبی ﷺ جو دیکھا کہ آپ نے دونوں ہاتھ اس حلوے پر رکھ دیے اور جو اللہ کو منظور تھا وہ اپنی زبان سے پڑھا، اس کے بعد دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلانا شروع کیا۔ آپ ان سے فرماتے تھے: ”اللہ کا نام لے کر ہر آدمی آپنے آگے سے کھائے۔“ بہر حال سب لوگ کھا کر گھرسے باہر چل دیے، البتہ تین آدمی گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے اور مجھے ان کے نہ جانے سے رنج پیدا ہوا آخر کار نبی ﷺ اپنی بیویوں کے حجروں کی طرف گئے، میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا، میں نے (آپ سے ﷺ سے) کہا: لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں اس وقت آپ واپس آ کر گھر میں داخل ہوئے اور پردہ لٹکا دیا۔ میں ابھی حجرے ہی میں تھا آپ (سورہ احزاب) کی یہ آیات پڑھ رہے تھے۔ ”اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر جب کھانے کے لیے اندر آنے کی اجازت دی جائے، وہاں بیٹھ کر کھانا پکنے کا انتظار نہ کرو، البتہ جب تمہیں بلایا جائے تو اندر جاؤ اور کھانے سے فارغ ہوتے ہی واپس چلے آؤ، باتوں میں لگ کر وہاں بیٹھے نہ رہو، یہ بات نبی کو تکلیف دیتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالٰی حق بات کہنے سے نہیں شرماتا۔“ ابو عثمان کہتے ہیں کہ سیدنا انس ؓ فرمایا کرتے تھے: بے شک میں نے دس سال تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت انجام دی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ دلھا اور دلھن کو تحائف بھیجنا مستحب ہے۔ اسلام سے پہلے بھی انھیں شادی کے موقع پر تحائف بھیجے جاتے تھے۔ اسلام نے دور جاہلیت کی اس رسم کو برقرار رکھا اور اسے پسندیدہ قرار دیا ہے۔ تحفہ اگرچہ مقدار میں کم ہو وہ محبت اور الفت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے ذریعے سے بے تکلفی کو فروغ ملتا ہے جو آپس کے میل جول کی بنیاد ہے۔ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہما نے اسی اصول کے مطابق قلیل مقدار میں تحفہ بھیجا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس میں خوب خوب برکت ڈال دی۔ (2) بعض حضرات نے اس حدیث کے متعلق ایک اشکال ظاہر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ولیمے پر گوشت اور روٹی کھلائی تھی جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ نے ام سلیم رضی اللہ عنہما کے حلوے سے ولیمے کی دعوت کی؟ دراصل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گوشت اور روٹی کھانے کے دوران میں ہی حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کی طرف سے حلوہ آ گیا جو سویٹ ڈش کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اس بنا پر ان دونوں روایات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ (فتح الباري: 283/9) و اللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور ابراہیم بن طہمان نے ابوعثمان جعد بن دینار سے روایت کیا، انہوں نے انس بن مالک سے، ابوعثمان کہتے ہیں کہ انس ؓ ہمارے سامنے سے بنی رفاعہ کی مسجد میں (جو بصرہ میں ہے) گزرے۔ میں نے ان سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ کا قاعدہ تھا آپ جب ام سلیم ؓ کے گھر کی طرف سے گزرتے تو ان کے پاس جاتے، ان کو سلام کرتے (وہ آپ کی رضاعی خالہ ہوتی تھیں) پھر انس ؓ نے بیان کیا کہ ایک بار ایسا ہوا کہ آنحضرت ﷺ دولہا تھے۔ آپ نے زینب ؓ سے نکا ح کیا تھا تو ام سلیم (میری ماں) مجھ سے کہنے لگیں اس وقت ہم آنحضرت ﷺ کے پاس کچھ تحفہ بھیجیں تو اچھا ہے۔ میں نے کہا مناسب ہے۔ انہوں نے کھجور اور گھی اور پنیر ملا کر ایک ہانڈی میں حلوہ بنایا اور میرے ہاتھ میں دیکر آنحضرت ﷺ کے پاس بھجوایا، میں لے کر آپ کے پاس چلا، جب پہنچا تو آپ نے فرمایا رکھ دے اور جا کر فلاں فلاں لوگوں کو بلا لا آپ نے ان کا نا م لیا اور جو بھی کوئی تجھ کو راستے میں ملے اس کو بلا لے۔ انس ؓ نے کہا کہ میں آپ کے حکم کے موافق لوگوں کو دعوت دینے گیا۔ لوٹ کر جو آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سارا گھر لوگوں سے بھرا ہوا ہے۔ میں نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے دونو ں ہاتھ اس حلوے پر رکھے اورجو اللہ کو منظور تھا وہ زبان سے کہا (برکت کی دعا فرمائی) پھر دس دس آدمیوں کو کھانے کے لئے بلانا شروع کیا۔ آپ ان سے فرماتے جاتے تھے اللہ کا نام لو اور ہر ایک آدمی اپنے آگے سے کھائے۔ (رکابی کے بیچ میں ہاتھ نہ ڈالے) یہا ں تک کہ سب لوگ کھا کر گھر کے باہر چل دیے۔ تین آدمی گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے اور مجھ کو ان کے نہ جانے سے رنج پیدا ہوا (اس خیال سے کہ آنحضرت ﷺ کو تکلیف ہوگی) آخر آنحضرت ﷺ اپنی بیویوں کے حجروں پر گئے، میں بھی آپ کے پیچھے پیچھے گیا پھر راستے میں میں نے آپ سے کہا اب وہ تین آدمی بھی چلے گئے ہیں۔ اس وقت آپ لوٹے اور (زینب ؓ کے حجرے میں) آئے۔ میں بھی حجرے ہی میں تھا لیکن آپ نے میری اور اپنے بیچ میں پردہ ڈال لیا۔ آپ سورۃ احزاب کی یہ آیت پڑھ رہے تھے۔ ”مسلمانو! نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو مگر جب کھانے کے لئے تم کو اند ر آنے کی اجازت دی جائے اس وقت جاؤ وہ بھی ایسا ٹھیک وقت دیکھ کر کہ کھانے کے پکنے کا انتظار نہ کرنا پڑے البتہ جب بلائے جاؤ تو اندر آ جاؤ اور کھانے سے فارغ ہوتے ہی چل دو۔ باتوں میں لگ کر وہا ں بیٹھے نہ رہا کرو، ایسا کرنے سے پیغمبر کو تکلیف ہوتی تھی، اس کو تم سے شرم آتی تھی (کہ تم سے کہے کہ چلے جاؤ) اللہ تعالیٰ حق بات میں نہیں شرماتا۔“ ابوعثمان (جعدی بن دینار) کہتے تھے کہ انس ؓ کہا کرتے تھے: بے شک میں نے دس سال تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت انجام دی ہے۔
حدیث حاشیہ:
قاضی عیاض نے کہا یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں تو آپ نے لوگوں کو پیٹ بھر کر گوشت روٹی کھلایا تھا جیسا کہ دوسری روایت میں ہے پھر انہوں نے کیا کھایا۔ اس روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ کھانا بڑھ گیا تھاتو اس روایت میں راوی کا سہو ہے۔ اس نے ایک قصہ کو دوسرے قصہ پر چسپاں کر دیا ادھر ممکن ہے کہ حلوہ اسی وقت آیا ہو جب لوگ روٹی گوشت کھا رہے ہوں تو سب نے یہ حلوہ بھی کھا لیا ہو۔ قرطبی نے کہا شاید ایسا ہوا ہو گا کہ روٹی گوشت کھا کر کچھ لوگ چل دئے ہوں گے، صرف تین آدمی ان میں سے بیٹھے رہ گئے ہوں گے جو باتوں میں لگ گئے تھے اتنے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ حلوہ لے کر آئے ہوں گے تو آپ نے ان کے ذریعہ سے دوسرے لوگوں کو بلوایا وہ بھی کھا کر چل دئیے لیکن یہ تین آدمی بیٹھے کے بیٹھے رہے۔ ان ہی سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی اب بھی حکم یہی ہے۔