Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: The Walima (wedding banquet) is obligatory)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبدالرحمٰن بن عوفؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ ولیمہ کی دعوت کر خواہ ایک بکری ہی ہو۔تشریح: اکثر علماء نے ولیمہ کی دعوت کو سنت کہا ہےاور اسے قبول کرنا بھی سنت ہے یہ بیوی سے پہلی دفعہ جماع کر کے ہوتا ہے
5206.
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو میری عمر دس برس تھی، میری مائیں مجھے نبی ﷺ کی خدمت کرنے کا ہمیشہ حکم دیتی تھیں۔ میں نے دس سال آپ ﷺ کی خدمت کی۔ نبی ﷺ نے وفات پائی اس وقت میری عمر بیس برس تھی۔ جب پردے کے احکام نازل ہوئے تو میں انہیں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں کہ کب نازل ہوئے۔ سب سے پہلے پردے کا حکم اس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ ﷺ سیدنا زینب بنت حجش ؓ کو نکاح کے بعد اپنے گھر لائے اور نبی ﷺ ان کے دلھا بنے تھے۔ آپ نے لوگوں کی دعوت کی انہیں بلایا۔ لوگوں نے کھانا کھایا اور چلے گئے لیکن کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں دیر تک بیٹھے رہے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے ہمراہ باہر چلا گیا تاکہ یہ لوگ بھی چلے جائیں۔ نبی ﷺ چلتے رہے اور میں بھی آپ کے ساتھ رہا حتیٰ کہ آپ سیدہ عائشہ عنہا کے حجرے کے پاس آئے تو آپ کو خیال آیا کہ وہ لوگ چلے گئے ہوں گے، اس لیے آپ واپس آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ واپس آ گیا۔ جب آپ سیدہ زینب ؓ کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ اپنی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں اور وہاں سے نہیں اٹھے لہذا آپ وہاں سے پھر واپس تشریف لائے اور میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا۔ جب آپ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے کے دروازے پر پہنچے تو معلوم ہوا وہ لوگ جا چکے ہیں، چنانچہ آپ واپس آئے توميں بھی آپ کے ساتھ واپس آ گیا۔ اب وہ لوگ (واقعی) جا چکے تھے۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا اور پردے کی آیات نازل ہوئیں۔
تشریح:
(1) ولیمہ مشروع اور ثابت ہے۔ اس میں کھانے کے متعلق کمی بیشی کی کوئی قید نہیں بلکہ حسب ضرورت اور حسب توفیق ولیمے کا کھانا تیار کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمے میں کھجور اور ستو کا اہتمام کیا تھا۔ (جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1095) لیکن ولیمے کا کھانا تناول کرنا ضروری نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اگر چاہے تو کھائے اگر چاہے تو چھوڑ دے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3518 (1430)) (2) دعوت ولیمہ میں غیر شرعی کام ہو رہے ہوں تو اس میں شرکت سے بچنا چاہیے۔ والله أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4966
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5166
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5166
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5166
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
ولیمہ،بیوی سے پہلی دفعہ ملاپ کے بعد ہوتا ہے اور یہ دعوت سنت مؤکدہ ہے۔اسے قبول کرنے کی بھی بہت زیادہ تاکید ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ برا طعام ولیمے کا طعام ہے کیونکہ اس میں مال داروں کو دعوت دی جاتی ہے اور مسکینوں کو نطر انداز کردیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3521 (1432))
اور عبدالرحمٰن بن عوفؓنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ ولیمہ کی دعوت کر خواہ ایک بکری ہی ہو۔تشریح: اکثر علماء نے ولیمہ کی دعوت کو سنت کہا ہےاور اسے قبول کرنا بھی سنت ہے یہ بیوی سے پہلی دفعہ جماع کر کے ہوتا ہے
حدیث ترجمہ:
سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو میری عمر دس برس تھی، میری مائیں مجھے نبی ﷺ کی خدمت کرنے کا ہمیشہ حکم دیتی تھیں۔ میں نے دس سال آپ ﷺ کی خدمت کی۔ نبی ﷺ نے وفات پائی اس وقت میری عمر بیس برس تھی۔ جب پردے کے احکام نازل ہوئے تو میں انہیں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں کہ کب نازل ہوئے۔ سب سے پہلے پردے کا حکم اس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ ﷺ سیدنا زینب بنت حجش ؓ کو نکاح کے بعد اپنے گھر لائے اور نبی ﷺ ان کے دلھا بنے تھے۔ آپ نے لوگوں کی دعوت کی انہیں بلایا۔ لوگوں نے کھانا کھایا اور چلے گئے لیکن کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں دیر تک بیٹھے رہے۔ اس دوران میں نبی ﷺ کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے۔ میں بھی آپ کے ہمراہ باہر چلا گیا تاکہ یہ لوگ بھی چلے جائیں۔ نبی ﷺ چلتے رہے اور میں بھی آپ کے ساتھ رہا حتیٰ کہ آپ سیدہ عائشہ عنہا کے حجرے کے پاس آئے تو آپ کو خیال آیا کہ وہ لوگ چلے گئے ہوں گے، اس لیے آپ واپس آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ واپس آ گیا۔ جب آپ سیدہ زینب ؓ کے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ اپنی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں اور وہاں سے نہیں اٹھے لہذا آپ وہاں سے پھر واپس تشریف لائے اور میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا۔ جب آپ سیدہ عائشہ ؓ کے حجرے کے دروازے پر پہنچے تو معلوم ہوا وہ لوگ جا چکے ہیں، چنانچہ آپ واپس آئے توميں بھی آپ کے ساتھ واپس آ گیا۔ اب وہ لوگ (واقعی) جا چکے تھے۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا اور پردے کی آیات نازل ہوئیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ولیمہ مشروع اور ثابت ہے۔ اس میں کھانے کے متعلق کمی بیشی کی کوئی قید نہیں بلکہ حسب ضرورت اور حسب توفیق ولیمے کا کھانا تیار کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمے میں کھجور اور ستو کا اہتمام کیا تھا۔ (جامع الترمذي، النکاح، حدیث: 1095) لیکن ولیمے کا کھانا تناول کرنا ضروری نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اگر چاہے تو کھائے اگر چاہے تو چھوڑ دے۔‘‘ (صحیح مسلم، النکاح، حدیث: 3518 (1430)) (2) دعوت ولیمہ میں غیر شرعی کام ہو رہے ہوں تو اس میں شرکت سے بچنا چاہیے۔ والله أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بیان کیا کہ نبی ﷺنے مجھ سے فرمایا: ”ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری ہو“
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیٰ بن بکیرنے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور انہیں انس بن مالک ؓ نے خبر دی کہ جب رسول کریم ﷺ مدینہ منورہ ہجرت کر کے آئے تو ان کی عمر دس برس کی تھی۔ میری ماں اور بہنیں نبی کریم ﷺ کی خدمت کے لئے مجھ کو تاکید کرتی رہتی تھیں۔ چنانچہ میں نے حضور اکرم ﷺ کی دس برس تک خدمت کی اور جب آپ کی وفات ہوئی تو میں بیس برس کا تھا۔ پردہ کے متعلق میں سب سے زیادہ جاننے والوں میں سے ہوں کہ کب نازل ہوا۔ سب سے پہلے یہ حکم اس وقت نازل ہوا تھا جب آنحضرت ﷺ زینب بنت جحش ؓ سے نکاح کے بعد انہیں اپنے گھر لائے تھے، آپ ان کے دولہا بنے تھے۔ پھر آپ نے لوگوں کو (دعوت ولیمہ پر) بلایا۔ لوگوں نے کھانا کھایا اور چلے گئے۔ لیکن کچھ لوگ ان میں سے آنحضرت ﷺ کے گھر میں (کھا نے کے بعد بھی) دیر تک وہیں بیٹھے (باتیں کر تے رہے) آخر آنحضرت ﷺ کھڑے ہوئے اور باہر تشریف لے گئے۔ میں بھی آنحضرت ﷺ کے ساتھ باہر گیا تا کہ یہ لوگ بھی چلے جائیں ۔ آنحضرت ﷺ چلتے رہے اور میں بھی آپ کے ساتھ رہا ۔ جب آپ حضرت عائشہ ؓ کے حجرہ کے پاس دروازے پر آئے تو آپ کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ چلے گئے ہیں۔ اس لئے آپ واپس تشریف لائے اور میں بھی آپ کے ساتھ آیا۔ جب آپ زینب ؓ کے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہ لوگ ابھی بیٹھے ہوئے ہیں اور ابھی تک نہیں گئے ہیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ وہاں سے پھر واپس تشریف لائے اور میں بھی آپ کے ساتھ واپس آ گیا جب آپ عائشہ ؓ کے حجرہ کے دروازے پر پہنچے اور آپ کو معلوم ہوا کہ وہ لوگ چلے گئے ہیں تو آپ پھر واپس تشریف لائے اور میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا۔ اب وہ لوگ واقعی جا چکے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کے بعد اپنے اور میرے بیچ میں پردہ ڈال دیا اور پردہ کی آیت نازل ہوئی۔
حدیث حاشیہ:
نووی نے کہا کہ ولیمہ کی دعوت آٹھ ہیں۔ ختنہ کی دعوت، سلامتی کے ساتھ زچگی پر دعوت کرنا، مسافر کی خیریت سے واپسی پر دعوت کرنا، مکان کی تیاری یا سکونت پر، غمی پر کھانا کھلانا، دعوت احباب جو بلا سبب ہو، بچے کے ہوشیار ہونے پر، تسمیہ خوانی کی دعوت، عشیرہ ماہ رجب کی دعوت، یہ جملہ دعوات وہ ہیں جن میں شرکت ضروری نہیں ہے نہ ان کا کرنا ضروری ہے۔ ایسی دعوت صرف ولیمہ کی دعوت ہے جو کرنی بھی ضروری اور اس میں شرکت بھی ضروری ہے۔ ولیمہ کی دعوت انسان کو حسب توفیق کرنا چاہئے۔ شہرت اور ناموری کے لئے پانچ چھ روز تک کھلانا بھی ٹھیک نہیں ہے یا بعض زیادہ کھانا پکواتے ہیں اور دعوت کم لوگوں کی کرتے ہیں جس کی وجہ سے کھانا خراب ہو جاتا ہے یا کھانا کم پکاتے ہیں اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مدعو کرتے ہیں محض دکھاوے کے لئے تو ایسا کرنا بھی درست نہیں بلکہ حسب حال کرنا بہتر ہے غمی پر کھانا کرنا بطور رسم نہ ہو ورنہ الٹا گناہ ہو جائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): I was ten years old when Allah's Apostle (ﷺ) arrived at Medina. My mother and aunts used to urge me to serve the Prophet (ﷺ) regularly, and I served him for ten years. When the Prophet (ﷺ) died I was twenty years old, and I knew about the order of Al-Hijab (veiling of ladies) more than any other person when it was revealed. It was revealed for the first time when Allah's Apostle (ﷺ) had consummated his marriage with Zainab bint Jahsh. When the day dawned, the Prophet (ﷺ) was a bridegroom and he invited the people to a banquet, so they came, ate, and then all left except a few who remained with the Prophet (ﷺ) for a long time. The Prophet (ﷺ) got up and went out, and I too went out with him so that those people might leave too. The Prophet (ﷺ) proceeded and so did I, till he came to the threshold of 'Aisha's dwelling place. Then thinking that these people have left by then, he returned and so did I along with him till he entered upon Zainab and behold, they were still sitting and had not gone. So the Prophet (ﷺ) again went away and I went away along with him. When we reached the threshold of 'Aisha's dwelling place, he thought that they had left, and so he returned and I too, returned along with him and found those people had left. Then the Prophet (ﷺ) drew a curtain between me and him, and the Verses of Al-Hijab were revealed.