تشریح:
(1) اس حدیث کی وضاحت ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے طلاق دینے کا خطرہ لاحق ہوا تو انھوں نے آپ سے عرض کی: آپ مجھے طلاق نہ دیں،میں اپنی باری سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیتی ہوں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا ہی کیا۔ اس وقت مذکورہ آیت نازل ہوئی، گویا میاں بیوی جس شرط پر بھی صلح کرلیں وہ جائز ہے۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3040)
(2) اس آیت کریمہ میں صلح سے مراد مہر کم کرنا یا بالکل معاف کر دینا، اپنی باری چھوڑ دینا، نان و نفقہ سے دستبردار ہو جانا اور شوہر کو کوئی ایسی چیز ہبہ کرنا جس سے اس کا میلان ہو۔ بہرحال طلاق دینے سے صلح بہتر ہے کیونکہ اس سے باہمی جھگڑا ختم ہو جاتا ہے۔ اس قسم کی صلح پر امت کا اتفاق ہے۔ (عمدة القاري: 180/14)