تشریح:
(1) کتاب اور باب میں لفظی تکرار نہیں ہے، کیونکہ کتاب مواقیت الصلاة میں احکام اوقات کا بیان ہے کہ کن اوقات میں نماز پڑھنا مکروہ، کن میں افضل اور کن میں جائز ہے، جبکہ باب مواقیت الصلاة میں صرف ان اوقات کا بیان ہے جن میں نماز پڑھنا افضل ہے۔
(2) امرائے بنو امیہ نماز دیر سے پڑھنے کہ عادی تھے، لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کو اللہ تعالیٰ نے اس عادت سے محفوظ رکھا۔ اتفاقاً ایک دن عصر کی نماز میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ (صحیح البخاري، بدءالخلق، حدیث:3221) اس تاخیر کی وجہ بھی ایک روایت میں بیان ہوئی ہے کہ آپ مسلمانوں کے اخلاق واعمال کی اصلاح کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے اور وعظ کہتے ہوئے نماز عصر میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ (سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث:394) تاہم جب حضرت عروہ بن زبیر نے مذکورہ حدیث سنائی تو نمازوں کے اوقات کی اس قدر اہمیت پر حیران رہ گئے اور حضرت عروہ سے سوال کیا کہ واقعی حضرت جبرائيل ؑ نے ان اوقات کے تعین کےلیے خود عملی طور پر رسول اللہ ﷺ کو تعلیم دی ہے؟ چنانچہ حضرت عروۃ نے باسند حدیث کا حوالہ دیا۔ اس کے بعد پابندئ اوقات کا یہ عالم تھا کہ پھر کبھی آپ نے نماز اداکرنے میں تاخیر نہیں کی، جیسا کہ روایات میں اس کی وضاحت ہے۔ (فتح الباري:9/2)
(3) حضرت ابو مسعود ؓ کا نام عقبہ بن عمرو انصاری ہے جنھوں نے معرکہ بدر میں شرکت فرمائی۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا امتیازی وصف یہ تھا کہ حاکم و محکوم کے مناصب سے بالاتر ہوکر ناصحانہ انداز میں فریضہ دعوت واصلاح سرانجام دینے کے خوگر تھے، چنانچہ حضرت امیر معاویہ ؓ کی طرف سے متعین کوفے کے گورنر حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے ایک مرتبہ عصر کی نماز میں کچھ تاخیر کی تو حضرت مسعود انصاری ؓ نے فورا ان کی اصلاح فرماتے ہوئے مذکورہ حدیث بیان کی، اور یہی جذبہ حضرت عروہ بن زبیر میں موجزن تھا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4007)