تشریح:
(1) بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ بیویوں کا گھر میں موجود رہنا زیادہ بہتر ہوتا ہے اور کچھ عورتیں سفر میں معاون و مدد گار ثابت ہوتی ہیں، ایسے حالات میں قرعہ اندازی ضروری نہیں ہاں، جب تمام بیویوں کے حالات ایک جیسے ہوں تو قرعہ اندازی کے ذریعے سے فیصلہ کیا جائے تاکہ دوسری بیویوں کو شکوہ و شکایت کا موقع نہ ملے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس امر کو ثابت کیا ہے۔ (فتح الباري: 386/9)
(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق اورآپ کی جدائی کی وجہ سے چاہتی تھیں کہ کوئی زہریلا جانور مجھےڈس لے تاکہ موت کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے دکھ اور تکلیف سے نجات مل جائے یا میری مصیبت کا سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں جس سے فراق اور جدائی کا غم دور ہو جائے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو پہلے تشریف لائے تھے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنی کوتاہی کی وجہ سے خود محروم رہ گئیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا بھی اس میں کوئی قصور نہیں تھا، اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مارے رنج کے خود کو کوسنے لگیں اور اپنے پاؤں گھاس میں ڈال لیے جس میں زہریلے کیڑے بکثرت رہتے تھے۔