تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ابو جہل کی بیٹی کے نکاح کی بات چلی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: لوگوں کے بقول آپ اپنی بیٹیوں کی خاطر کسی کی ناراضی مول نہیں لیتے ہیں، دیکھیں میرے شوہر حضرت علی، ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت آپ نے فرمایا: ’’میں فاطمہ کی تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اللہ کی قسم!اللہ کے رسول اللہ بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک آدمی کے ہاں جمع نہیں ہوسکتیں۔‘‘ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کا ارادہ ترک کر دیا۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ و سلم، حدیث: 3729) ایک دوسری روایت میں ہے: ’’میں فاطمہ کو اس کے دین کے متعلق آزمائش میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا اور نہ میں حلال ہی کو حرام اور حرام کو حلال کرتا ہوں لیکن اللہ کے دشمن کی بیٹی اور اللہ کے رسول کی بیٹی کبھی اکٹھی نہیں ہوسکتیں۔‘‘ (صحیح البخاري، فرض الخمس، حدیث: 3110)
(2) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو عار باپ میں ہو وہ اولاد میں بھی باقی رہتی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو اللہ کے دشمن کی بیٹی قرار دیا، اسی طرح آباؤ اجداد کی شرافت اولاد کے لیے باعث افتخار ہوتی ہے۔
(3) بہرحال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح جائز تھا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اور یہ بھی احتمال ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خصوصیت ہو۔ والله اعلم (فتح الباري: 408/9)