تشریح:
(1) اس حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے اپنے ایک سفر کا واقعہ بیان کیا ہے۔ جب ان کا ہار گم ہو گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ہار کی بازیابی کے لیے ایک بے آب و گیاہ میدان میں رکنا پڑا۔ اس دوران میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، بالآخر آیت تیمّم نازل ہوئی۔ اس کی تفصیل امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک دوسرے مقام پر بیان فرمائی ہے۔ (صحیح البخاري، التیمم، حدیث: 334)
(2)اس عنوان کے دو حصے ہیں: ایک آدمی کا دوسرے ساتھی سے کہنا کہ آج تم نے جماع کیا ہے؟ آدمی کا اپنی بیٹی کے پہلو میں غصے کے وقت ہاتھ مارنا۔ دوسرا حصہ تو ذکر کردہ حدیث سے ثابت ہو رہا ہے، البتہ پہلے حصے کہ متعلق کوئی دلیل نہیں ذکر کی گئی۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: امام بخاری رحمہ اللہ اس کے متعلق کوئی حدیث لکھنا چاہتے تھے لیکن وقت نہ ملایا شرط کے مطابق روایت نہ مل سکی، اس لیے بیاض چھوڑ دیا۔ (فتح الباري: 428/9) لیکن ہمیں اس موقف سے اتفاق نہیں ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اس اعتراض کے درج ذیل دو جواب ہیں: ٭اس حدیث میں ہے کہ میری ران پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک رکھا ہوا تھا۔ میاں بیوی کو اس حالت میں دیکھنا جائز ہے تو یہ پوچھنا بھی جائز ہے کہ آج رات تم ہم بستر ہوئے تھے یا نہیں۔ بنیادی طور پر ان دونوں معاملات کا تعلق شرم و حیا سے ہے، جب ایک جائز ہے تو دوسرا بھی جائز ہونا چاہیے۔ ٭بسا اوقات امام بخاری رحمہ اللہ پڑھنے والوں کی ذہنی صلاحیت بڑھانے کے لیے حدیث ذکر نہیں کرتے تاکہ قارئین خود اپنے ذہن پر زور دے کر اس خلا کو پر کریں، چنانچہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کا واقعہ ہے کہ ان کا بیٹا فوت ہو گیا تو انھوں نے اپنے بیٹے کی وفات کے موقع پر اپنے خاوند سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے عجیب و غریب معاملہ کیا۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ جب صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تم نے آج رات جماع کیا ہے؟‘‘ ابو طلحہ نے کہا: جی ہاں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، العقیقة، حدیث: 5470) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو کئی مرتبہ اپنی صحیح میں بیان کیا ہے، اس کے بعد یہ کہنا کہ آپ کو اپنی شرط کے مطابق کوئی حدیث نہ مل سکی اس لیے بیاض چھوڑ دیا اسے کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے، پھر صحیح بخاری لکھنے کے بعد (90) نوے ہزار شاگردوں کو اس صحیح بخاری کا درس دیا تو اس دعویٰ کو کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ وقت نہ مل سکا اس لیے عنوان کے مطابق حدیث ذکر نہ کر سکے۔
(3) بہرحال ہمارے نزدیک امام بخاری رحمہ اللہ نے بطور قیاس اس عنوان کے پہلے حصے کو ثابت کیا ہے یا قارئین کو خود غور کرنے کی ترغیب دینے کے لیے اسے حدیث کے بغیر رہنے دیا ہے تا کہ قاری خود اپنی استعداد کو بروئے کار لائے اور مناسب حدیث درج کرے۔ والله اعلم