صحیح بخاری
8. کتاب: نماز کے احکام و مسائل
108. باب: اس بیان میں کہ کیا مرد سجدہ کرتے وقت اپنی بیوی کو چھو سکتا ہے؟ (تاکہ وہ سکڑ کر جگہ چھوڑ دے کہ بآسانی سجدہ کیا جا سکے)۔
صحيح البخاري
8. كتاب الصلاة
108. بَابٌ: هَلْ يَغْمِزُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ عِنْدَ السُّجُودِ لِكَيْ يَسْجُدَ؟
Sahi-Bukhari
8. Prayers (Salat)
108. Chapter: Is it permissible to touch or push one's wife in prostration in order to prostrate properly?
باب: اس بیان میں کہ کیا مرد سجدہ کرتے وقت اپنی بیوی کو چھو سکتا ہے؟ (تاکہ وہ سکڑ کر جگہ چھوڑ دے کہ بآسانی سجدہ کیا جا سکے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: Is it permissible to touch or push one's wife in prostration in order to prostrate properly?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
526.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: تم لوگوں نے بہت برا کیا کہ ہم عورتوں کو کتے اور گدھے کے برابر کر دیا۔ بےشک میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حالت میں نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان لیٹی رہتی۔ جب آپ سجدہ کرنا چاہتے تو میرے پاؤں کو ٹٹول کر دبا دیتے اور میں انہیں سمیٹ لیتی۔
تشریح:
1۔ امام بخاری ؒ ان ابواب میں ان لوگوں کی تردید کرتے ہیں جنھوں نے عورت کے معاملے میں تشدد سے کام لیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجرؒ امام بخاری ؒ کے مقصد کو بایں الفاظ واضح کرتے ہیں: ’’پہلے باب میں آپ نے ثابت کیا تھا کہ نمازی کا کپڑا اگر دوران نماز میں عورت سے مس کرے تو اس کی نماز کے لیے نقصان دہ نہیں اور اس عنوان میں آپ نے مزید ترقی کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر خود نمازی عورت کے بدن کو ہاتھ لگا دے تو بھی نماز کے لیے ضرررساں نہیں۔‘‘(فتح الباي:767/1) 2۔ پیش کردہ حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدے میں جاتے تو حضرت عائشہ ؓ کے پاؤں کو دبا دیتے۔ حضرت عائشہ ؓ اپنے پاؤں سمیٹ لیتیں تو آپ سجدہ کرتے۔ اگرچہ شوافع نے اسے کپڑے کے اوپر سے چھونے پر محمول کیا ہے، تاہم روایت میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ اس لیے امام بخاری ؒ اس مسئلے میں ان کے مؤید نہیں ہیں۔ 3۔ امام بخاری ؒ پر اس سلسلے میں اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب روایت میں عورت کے پاؤں کو چھونے کی صراحت موجود ہے تو آپ نے عنوان میں لفظ (هَل) کیوں استعمال کیا ہے؟ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے اصول موضوعہ میں سے ہے کہ جس مسئلے میں اختلاف ہوتا ہے، وہاں عنوان میں لفظ (هَل) استعمال کر کے اس اختلاف کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ (مَسِ مرأة) سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ چونکہ اس کے متعلق آئمہ کرام کے مابین اختلاف تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے لفظ (هَل) سے مذکورہ عنوان کا آغاز فرمایا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
515
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
519
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
519
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
519
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: تم لوگوں نے بہت برا کیا کہ ہم عورتوں کو کتے اور گدھے کے برابر کر دیا۔ بےشک میں نے رسول اللہ ﷺ کو اس حالت میں نماز پڑھتے دیکھا ہے کہ میں آپ کے اور قبلے کے درمیان لیٹی رہتی۔ جب آپ سجدہ کرنا چاہتے تو میرے پاؤں کو ٹٹول کر دبا دیتے اور میں انہیں سمیٹ لیتی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری ؒ ان ابواب میں ان لوگوں کی تردید کرتے ہیں جنھوں نے عورت کے معاملے میں تشدد سے کام لیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجرؒ امام بخاری ؒ کے مقصد کو بایں الفاظ واضح کرتے ہیں: ’’پہلے باب میں آپ نے ثابت کیا تھا کہ نمازی کا کپڑا اگر دوران نماز میں عورت سے مس کرے تو اس کی نماز کے لیے نقصان دہ نہیں اور اس عنوان میں آپ نے مزید ترقی کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر خود نمازی عورت کے بدن کو ہاتھ لگا دے تو بھی نماز کے لیے ضرررساں نہیں۔‘‘(فتح الباي:767/1) 2۔ پیش کردہ حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سجدے میں جاتے تو حضرت عائشہ ؓ کے پاؤں کو دبا دیتے۔ حضرت عائشہ ؓ اپنے پاؤں سمیٹ لیتیں تو آپ سجدہ کرتے۔ اگرچہ شوافع نے اسے کپڑے کے اوپر سے چھونے پر محمول کیا ہے، تاہم روایت میں اس کی صراحت نہیں ہے۔ اس لیے امام بخاری ؒ اس مسئلے میں ان کے مؤید نہیں ہیں۔ 3۔ امام بخاری ؒ پر اس سلسلے میں اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب روایت میں عورت کے پاؤں کو چھونے کی صراحت موجود ہے تو آپ نے عنوان میں لفظ (هَل) کیوں استعمال کیا ہے؟ واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے اصول موضوعہ میں سے ہے کہ جس مسئلے میں اختلاف ہوتا ہے، وہاں عنوان میں لفظ (هَل) استعمال کر کے اس اختلاف کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں۔ (مَسِ مرأة) سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں؟ چونکہ اس کے متعلق آئمہ کرام کے مابین اختلاف تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے لفظ (هَل) سے مذکورہ عنوان کا آغاز فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قاسم بن محمد نے بیان کیا، انھوں نے حضرت عائشہ ؓ سے، آپ نے فرمایا کہ تم نے برا کیا کہ ہم کو کتوں اور گدھوں کے حکم میں کر دیا۔ خود نبی کریم ﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آپ کے سامنے لیٹی ہوئی تھی۔ جب سجدہ کرنا چاہتے تو میرے پاؤں کو چھو دیتے اور میں انھیں سکیڑ لیتی تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): It is not good that you people have made us (women) equal to dogs and donkeys. No doubt I saw Allah's Apostle (ﷺ) praying while I used to lie between him and the Qibla and when he wanted to prostrate, he pushed my legs and I withdrew them.