باب: اس بارے میں کہ اگر عورت نماز پڑھنے والے سے گندگی ہٹا دے (تو مضائقہ نہیں ہے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: A woman can remove troublesome or offensive things from a person in Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
527.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور کفار قریش کی ایک جماعت بھی وہاں مجلس لگا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ ان میں سے کسی کہنے والے نے کہا: کیا تم اس ریاکار کو نہیں دیکھتے؟ کیا تم میں سے کوئی ایسا جو فلاں خاندان کی ذبح شدہ اونٹنی کے پاس جائے اور اس کے گوبر، خون اور بچہ دانی کو اٹھا کر لائے؟ پھر اس کا انتظار کرے، جب یہ سجدے میں جائے تو ان تمام چیزوں کو اس کے کندھوں کے درمیان رکھ دے؟ چنانچہ اس جماعت کا سب سے بڑا بدبخت اس کام کے لیے تیار ہوا اور اسے اٹھا لایا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ سجدے میں گر گئے تو اس نے سب کچھ آپ کے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا۔ نبی ﷺ بحالت سجدہ ٹھہرے رہے اور کافر (رسول اللہ ﷺ کی) اس حالت پر بری طرح ہنستے رہے۔ اور وہ ہنسی کی وجہ سے ایک دوسرے پر گرتے جا رہے تھے۔ اندریں حالات کسی نے حضرت فاطمہ ؓ کو اطلاع دی۔ حضرت فاطمہ ؓ اس وقت کم عمر بچی تھیں، چنانچہ وہ اطلاع پاتے ہی دوڑتی ہوئی آئیں۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت سجدے ہی کی حالت میں تھے۔ حضرت فاطمہ ؓ نے یہ تمام چیزیں رسول اللہ ﷺ کے کندھوں سے دور کر دیں، پھر کفار کی طرف رخ کر کے انہیں سخت برا بھلا کہا۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ نے ان کے خلاف بایں الفاظ بددعا کی: ’’اے اللہ! قریش کو اپنی گرفت میں لے لے۔‘‘ پھر آپ نے نام بنام بایں الفاظ بددعا فرمائی: ’’اے اللہ! عمرو بن ہشام (ابوجہل)، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کو اپنی گرفت میں لے لے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! میں نے ان (نامزد) تمام لوگوں کو غزوہ بدر والے دن مردہ حالت میں گرے پڑے دیکھا۔ پھر ان کی لاشوں کو کھینچ کر بدر کے گندے کنویں میں ڈال دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے (ان کے متعلق) فرمایا: ’’جو لوگ بدر کے کنویں میں ڈالنے گئے ہیں ان پر اللہ کی لعنت مسلط کر دی گئی ہے۔‘‘
تشریح:
1۔ ابن بطال شارح صحیح بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ یہ عنوان بھی سابقہ عناوین سے ملتا جلتا ہے کہ عورت جب نمازی کی پشت پر سے کوئی چیز دور کرے گی تو جس جانب سے ہٹانے میں اسے آسانی ہوگی عورت کو اسی جانب جانا ہو گا، اس لیے کمر سے بوجھ ہٹانے کا مضمون سامنے سے گزرنے کے مضمون سے اگر زیادہ اہم نہیں تو اس سے کم بھی نہیں۔ (شرح ابن بطال:146/2) اس میں کوئی شک نہیں کہ امام بخاری ؒ ان ابواب میں ایک طرف تو عورت کے معاملے میں تشدد کی رواہ اختیار کرنے والوں کو تنبیہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب اسے چھونے میں کوئی مضائقہ نہیں، جب اتصال جسمانی سے بھی نماز ختم نہیں ہوتی تو اسے نماز کے لیے سترہ بنانے میں بدرجہ اولیٰ نقصان دہ نہیں ہونا چاہیے۔ 2۔ ابن بطال نے مزید فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے کفار کے خلاف بددعا اس وقت فرمائی جب آپ ان سے راہ حق اختیار کرنے کے متعلق مایوس ہو چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے شرف قبولیت بخشا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے: ﴿إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾’’ہم آپ کی طرف سے ٹھٹھا کرنے والوں کو کافی ہیں۔‘‘(الحجر:15/95) لیکن جن لوگوں کے متعلق قبول ہدایت کی امید تھی ان کے لیے آپ نے ہدایت قبول کرنے اور حق کی طرف لوٹنے کی دعا فرمائی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ (شرح ابن بطال:167/2) اگر قرائن سے کفارکے متعلق معلوم ہو جائے کہ وہ اپنی حرکات شینعہ سے باز آنے والے نہیں تو ان کے حق میں ان بنام بددعا کرنا جائز ہے، کیونکہ مومن کا آخری ہتھیار دعاہی ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور وہ سب بدر کی لڑائی میں ذلت کے ساتھ مارے گئے اور ہمیشہ کے لیے اللہ کی لعنت میں گرفتار ہوئے۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس روایت میں عمارہ بن ولید کو قلیب بدر والوں میں شمار کرنا وجہ اشکال بنا ہے، کیونکہ اصحاب سیر نے لکھا ہے کہ اس کی موت حبشہ میں ہوئی تھی، جبکہ نجاشی شاہ حبشہ نے اس کی غلط روش پر تنبیہ کرنے کے لیے ایک جادو گر کے ذریعے سے اس پر جادو کرایا تھا۔ جس کی بنا پر وہ حبشی جانوروں کی طرح گلی کوچوں میں دوڑتا اور مارامارا پھرتا۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں بایں حالت ہی اسے موت آئی۔ اس اشکال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے ان اشرار قریش میں سے اکثر کو بدر کے کنویں میں دیکھا ہو گا۔ (فتح الباري:457/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
516
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
520
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
520
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
520
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور کفار قریش کی ایک جماعت بھی وہاں مجلس لگا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ ان میں سے کسی کہنے والے نے کہا: کیا تم اس ریاکار کو نہیں دیکھتے؟ کیا تم میں سے کوئی ایسا جو فلاں خاندان کی ذبح شدہ اونٹنی کے پاس جائے اور اس کے گوبر، خون اور بچہ دانی کو اٹھا کر لائے؟ پھر اس کا انتظار کرے، جب یہ سجدے میں جائے تو ان تمام چیزوں کو اس کے کندھوں کے درمیان رکھ دے؟ چنانچہ اس جماعت کا سب سے بڑا بدبخت اس کام کے لیے تیار ہوا اور اسے اٹھا لایا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ سجدے میں گر گئے تو اس نے سب کچھ آپ کے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا۔ نبی ﷺ بحالت سجدہ ٹھہرے رہے اور کافر (رسول اللہ ﷺ کی) اس حالت پر بری طرح ہنستے رہے۔ اور وہ ہنسی کی وجہ سے ایک دوسرے پر گرتے جا رہے تھے۔ اندریں حالات کسی نے حضرت فاطمہ ؓ کو اطلاع دی۔ حضرت فاطمہ ؓ اس وقت کم عمر بچی تھیں، چنانچہ وہ اطلاع پاتے ہی دوڑتی ہوئی آئیں۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت سجدے ہی کی حالت میں تھے۔ حضرت فاطمہ ؓ نے یہ تمام چیزیں رسول اللہ ﷺ کے کندھوں سے دور کر دیں، پھر کفار کی طرف رخ کر کے انہیں سخت برا بھلا کہا۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ نے ان کے خلاف بایں الفاظ بددعا کی: ’’اے اللہ! قریش کو اپنی گرفت میں لے لے۔‘‘ پھر آپ نے نام بنام بایں الفاظ بددعا فرمائی: ’’اے اللہ! عمرو بن ہشام (ابوجہل)، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ بن ولید کو اپنی گرفت میں لے لے۔‘‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! میں نے ان (نامزد) تمام لوگوں کو غزوہ بدر والے دن مردہ حالت میں گرے پڑے دیکھا۔ پھر ان کی لاشوں کو کھینچ کر بدر کے گندے کنویں میں ڈال دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے (ان کے متعلق) فرمایا: ’’جو لوگ بدر کے کنویں میں ڈالنے گئے ہیں ان پر اللہ کی لعنت مسلط کر دی گئی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ ابن بطال شارح صحیح بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ یہ عنوان بھی سابقہ عناوین سے ملتا جلتا ہے کہ عورت جب نمازی کی پشت پر سے کوئی چیز دور کرے گی تو جس جانب سے ہٹانے میں اسے آسانی ہوگی عورت کو اسی جانب جانا ہو گا، اس لیے کمر سے بوجھ ہٹانے کا مضمون سامنے سے گزرنے کے مضمون سے اگر زیادہ اہم نہیں تو اس سے کم بھی نہیں۔ (شرح ابن بطال:146/2) اس میں کوئی شک نہیں کہ امام بخاری ؒ ان ابواب میں ایک طرف تو عورت کے معاملے میں تشدد کی رواہ اختیار کرنے والوں کو تنبیہ کر رہے ہیں تو دوسری طرف یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جب اسے چھونے میں کوئی مضائقہ نہیں، جب اتصال جسمانی سے بھی نماز ختم نہیں ہوتی تو اسے نماز کے لیے سترہ بنانے میں بدرجہ اولیٰ نقصان دہ نہیں ہونا چاہیے۔ 2۔ ابن بطال نے مزید فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے کفار کے خلاف بددعا اس وقت فرمائی جب آپ ان سے راہ حق اختیار کرنے کے متعلق مایوس ہو چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے شرف قبولیت بخشا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا ہے: ﴿إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾’’ہم آپ کی طرف سے ٹھٹھا کرنے والوں کو کافی ہیں۔‘‘(الحجر:15/95) لیکن جن لوگوں کے متعلق قبول ہدایت کی امید تھی ان کے لیے آپ نے ہدایت قبول کرنے اور حق کی طرف لوٹنے کی دعا فرمائی جو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی۔ (شرح ابن بطال:167/2) اگر قرائن سے کفارکے متعلق معلوم ہو جائے کہ وہ اپنی حرکات شینعہ سے باز آنے والے نہیں تو ان کے حق میں ان بنام بددعا کرنا جائز ہے، کیونکہ مومن کا آخری ہتھیار دعاہی ہوتا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور وہ سب بدر کی لڑائی میں ذلت کے ساتھ مارے گئے اور ہمیشہ کے لیے اللہ کی لعنت میں گرفتار ہوئے۔ 3۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس روایت میں عمارہ بن ولید کو قلیب بدر والوں میں شمار کرنا وجہ اشکال بنا ہے، کیونکہ اصحاب سیر نے لکھا ہے کہ اس کی موت حبشہ میں ہوئی تھی، جبکہ نجاشی شاہ حبشہ نے اس کی غلط روش پر تنبیہ کرنے کے لیے ایک جادو گر کے ذریعے سے اس پر جادو کرایا تھا۔ جس کی بنا پر وہ حبشی جانوروں کی طرح گلی کوچوں میں دوڑتا اور مارامارا پھرتا۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں بایں حالت ہی اسے موت آئی۔ اس اشکال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ نے ان اشرار قریش میں سے اکثر کو بدر کے کنویں میں دیکھا ہو گا۔ (فتح الباري:457/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن اسحاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اسرائیل نے ابواسحاق کے واسطہ سے بیان کیا۔ انھوں نے عمرو بن میمون سے، انھوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے، کہا کہ رسول اللہ ﷺ کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ قریش اپنی مجلس میں (قریب ہی) بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ان میں سے ایک قریشی بولا اس ریاکار کو نہیں دیکھتے؟ کیا کوئی ہے جو فلاں قبیلہ کے ذبح کئے ہوئے اونٹ کا گوبر، خون اور اوجھڑی اٹھا لائے۔ پھر یہاں انتظار کرے۔ جب یہ (آنحضور ﷺ) سجدہ میں جائے تو گردن پر رکھ دے (چنانچہ اس کام کو انجام دینے کے لیے) ان میں سے سب سے زیادہ بدبخت شخص اٹھا اور جب آپ ﷺ سجدہ میں گئے تو اس نے آپ ﷺ کی گردن مبارک پر یہ غلاظتیں ڈال دیں۔ آنحضور ﷺ سجدہ ہی کی حالت میں سر رکھے رہے۔ مشرکین (یہ دیکھ کر) ہنسے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ ایک شخص (غالباً ابن مسعود ؓ ) حضرت فاطمہ ؓ کے پاس آئے۔ وہ ابھی بچہ تھیں۔ آپ ؓ دوڑتی ہوئی آئیں۔ حضور ﷺ اب بھی سجدہ ہی میں تھے۔ پھر (حضرت فاطمہ ؓ نے) ان غلاظتوں کو آپ ﷺ کے اوپر سے ہٹایا اور مشرکین کو برا بھلا کہا۔ آنحضور ﷺ نے نماز پوری کر کے فرمایا: ’’یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔‘‘ پھر نام لے کر کہا خدایا! عمرو بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ ابن ولید کو ہلاک کر۔ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا، خدا کی قسم! میں نے ان سب کو بدر کی لڑائی میں مقتول پایا۔ پھر انھیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کنویں والے خدا کی رحمت سے دور کر دئیے گئے۔
حدیث حاشیہ:
ابتدائے اسلام میں جو کچھ قریش نے آپ ﷺ سے برتاؤ کیا۔ اسی میں سے ایک یہ واقعہ بھی ہے۔ آپ ﷺ کی دعا خدا نے قبول کی اوروہ بدبخت سب کے سب بدرکی لڑائی میں ذلت کے ساتھ مارے گئے اورہمیشہ کے لیے خدا کی لعنت میں گرفتار ہوئے۔ باب کا مقصد یہ ہے کہ ایسے موقع پر اگرکوئی بھی عورت نمازی کے اوپر سے گندگی اٹھاکر دورکردے تواس سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرقرائن سے کفار کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ اپنی حرکات بد سے باز نہیں آئیں گے تو ان کے لیے بددعا کرنا جائز ہے۔ بلکہ ایسے بدبختوں کا نام لے کر بددعا کی جاسکتی ہے کہ مومن کایہی آخری ہتھیارسے۔ وہ غلاظت لانے والا عقبہ بن ابی معیط ملعون تھا۔ الحمدللہ کہ عاشورہ محرم 1388ھ میں اس مبارک کتاب کے پارہ دوم کے ترجمہ اورتحشیہ سے فراغت حاصل ہوئی۔ اللہ پاک میری قلمی لغزشوں کو معاف فرماکر اسے قبول کرے اور میرے لیے، میرے والدین، اولاد، احباب کے لیے، جملہ معاونین کرام اورناظرین عظام کے لیے وسیلہ نجات بنائے۔ اوربقایا پاروں کو بھی اپنی غیبی امداد سے پورا کرائے۔ آمین! والحمدللہ رب العالمین۔ ( مترجم )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Maimuin (RA): 'Abdullah bin Mas'ud (RA) said, "While Allah's Apostle (ﷺ) was praying beside the Ka’bah, there were some Quraish people sitting in a gathering. One of them said, 'Don't you see this (who does deeds just to show off)? Who amongst you can go and bring the dung, blood and the abdominal contents (intestines, etc). Of the slaughtered camels of the family of so and so and then wait till he prostrates and put that in between his shoulders?' The most unfortunate amongst them ('Uqba bin Abi Mu'ait) went (and brought them) and when Allah's Apostle (ﷺ) prostrated, he put them between his shoulders. The Prophet (ﷺ) remained in prostration and they laughed so much so that they fell on each other. A passerby went to Fatima, who was a young girl in those days. She came running and the Prophet (ﷺ) was still in prostration. She removed them and cursed upon the Quraish on their faces. When Allah's Apostle (ﷺ) completed his prayer, he said, 'O Allah! Take revenge on Quraish.' He said so thrice and added, 'O Allah! take revenge on 'Amr bin Hisham, 'Utba bin Rabia, Shaiba bin Rabi'a, Al-Walid bin'Utba, Umaiya bin Khalaf, 'Uqba bin Abi Mu'ait and 'Umar a bin Al-Walid." Abdullah added, "By Allah! I saw all of them dead in the battle field on the day of Badr and they were dragged and thrown in the Qalib (a well) at Badr: Allah's Apostle (ﷺ) then said, 'Allah's curse has descended upon the people of the Qalib (well).