تشریح:
(1) حضرات صحابۂ کرام رسول اللہ ﷺ کا انتہائی ادب واحترام کرتے تھے۔ مذکورہ حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے اس اندیشے کے پیش نظر کہ مبادا آپ اکتا جائیں مزید سوالات سے گریز کیا، حالانکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حصول علم پر بہت حریص تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا طرز عمل ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ کسی عالم دین سے سوالات کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں یہ اکتاہٹ میں مبتلا نہ ہوجائے۔
(2) بعض دیگر احادیث میں اور اعمال کو افضل قرار دیا گیا ہے؟ دراصل رسول اللہ ﷺ ہر شخص کو اس کی حالت و نفسیات اور استعداد ولیاقت کے مطابق جواب دیا کرتے تھے۔ بعض اوقات حالات کے تقاضے کے پیش نظر جواب مختلف ہو جاتا، مثلا: ابتدائے اسلام میں جہاد کی زیادہ ضرورت تھی، اس لیے بعض احادیث میں اسے افضل عمل قرار دیا گیا ہے۔ متعدد نصوص سے نماز کا، صدقہ و خیرات سے افضل ہونا ثابت ہے، لیکن اگر کوئی مجبورولاچار آدمی بھوک سے دوچار ہو تو اس وقت اس پر صدقہ کرنا نماز سے افضل قرار پائے گا۔ (فتح الباري: 14/2)
(3) امام بخاری ؒ بعض اوقات تراجم کے ذریعے سے کسی مسئلے کا استنباط کرنے کے بجائے صرف حدیث کے معنی متعین کرتے ہیں۔ اس حدیث میں (الصلاة علی وقتها) کے الفاظ سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ نماز وقت سے پہلے ہو سکتی ہے، اس وہم کو دور کرنے کے لیے امام بخاری ؒ نے عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے (فضل الصلاة لوقتها) اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث میں لفظ علیٰ، لام کے معنی دے رہا ہے۔