قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ الطَّلاَقِ فِي الإِغْلاَقِ )

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: لِقَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «الأَعْمَالُ بِالنِّيَّةِ، وَلِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى» وَتَلاَ الشَّعْبِيُّ: {لاَ تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا} [البقرة: 286] " وَمَا لاَ يَجُوزُ مِنْ إِقْرَارِ المُوَسْوِسِ وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺلِلَّذِي أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ: «أَبِكَ جُنُونٌ» وَقَالَ عَلِيٌّ: بَقَرَ حَمْزَةُ خَوَاصِرَ شَارِفَيَّ، فَطَفِقَ النَّبِيُّ ﷺ يَلُومُ حَمْزَةَ، فَإِذَا حَمْزَةُ قَدْ ثَمِلَ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، ثُمَّ قَالَ حَمْزَةُ: هَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي، فَعَرَفَ النَّبِيُّ ﷺأَنَّهُ قَدْ ثَمِلَ، فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ وَقَالَ عُثْمَانُ: «لَيْسَ لِمَجْنُونٍ وَلاَ لِسَكْرَانَ طَلاَقٌ» وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «طَلاَقُ السَّكْرَانِ وَالمُسْتَكْرَهِ لَيْسَ بِجَائِزٍ» وَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ: «لاَ يَجُوزُ طَلاَقُ المُوَسْوِسِ» وَقَالَ عَطَاءٌ: «إِذَا بَدَا بِالطَّلاَقِ فَلَهُ شَرْطُهُ» وَقَالَ نَافِعٌ: طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ البَتَّةَ إِنْ خَرَجَتْ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: «إِنْ خَرَجَتْ فَقَدْ بُتَّتْ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ تَخْرُجْ فَلَيْسَ بِشَيْءٍ» وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: " فِيمَنْ قَالَ: إِنْ لَمْ أَفْعَلْ كَذَا وَكَذَا فَامْرَأَتِي طَالِقٌ ثَلاَثًا: يُسْأَلُ عَمَّا قَالَ وَعَقَدَ عَلَيْهِ قَلْبُهُ حِينَ حَلَفَ بِتِلْكَ اليَمِينِ؟ فَإِنْ سَمَّى أَجَلًا أَرَادَهُ وَعَقَدَ عَلَيْهِ قَلْبُهُ حِينَ حَلَفَ، جُعِلَ ذَلِكَ فِي دِينِهِ وَأَمَانَتِهِ " وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ: " إِنْ قَالَ: لاَ حَاجَةَ لِي فِيكِ، نِيَّتُهُ، وَطَلاَقُ كُلِّ قَوْمٍ بِلِسَانهِمْ " وَقَالَ قَتَادَةُ: " إِذَا قَالَ: إِذَا حَمَلْتِ فَأَنْتِ طَالِقٌ ثَلاَثًا، يَغْشَاهَا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ مَرَّةً، فَإِنِ اسْتَبَانَ حَمْلُهَا فَقَدْ بَانَتْ مِنْهُ " وَقَالَ الحَسَنُ: " إِذَا قَالَ: الحَقِي بِأَهْلِكِ، نِيَّتُهُ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «الطَّلاَقُ [ص:46] عَنْ وَطَرٍ، وَالعَتَاقُ مَا أُرِيدَ بِهِ وَجْهُ اللَّهِ» وَقَالَ الزُّهْرِيُّ: " إِنْ قَالَ: مَا أَنْتِ بِامْرَأَتِي، نِيَّتُهُ، وَإِنْ نَوَى طَلاَقًا فَهُوَ مَا نَوَى " وَقَالَ عَلِيٌّ: " أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ القَلَمَ رُفِعَ عَنْ ثَلاَثَةٍ: عَنِ المَجْنُونِ حَتَّى يُفِيقَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يُدْرِكَ، وَعَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ " وَقَالَ عَلِيٌّ: «وَكُلُّ الطَّلاَقِ جَائِزٌ، إِلَّا طَلاَقَ المَعْتُوهِ»

5271. حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَسَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي المَسْجِدِ، فَنَادَاهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الآخَرَ قَدْ زَنَى - يَعْنِي نَفْسَهُ - فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَتَنَحَّى لِشِقِّ وَجْهِهِ الَّذِي أَعْرَضَ قِبَلَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الآخَرَ قَدْ زَنَى، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَتَنَحَّى لِشِقِّ وَجْهِهِ الَّذِي أَعْرَضَ قِبَلَهُ، فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَتَنَحَّى لَهُ الرَّابِعَةَ، فَلَمَّا شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ دَعَاهُ فَقَالَ: «هَلْ بِكَ جُنُونٌ؟» قَالَ: لاَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اذْهَبُوا بِهِ فَارْجُمُوهُ» وَكَانَ قَدْ أُحْصِنَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اسی طرح نشہ یا جنون میں دونوں کا حکم ایک ہونا ، اسی طرح بھول یا چوک سے طلاق دینا یا بھول چوک سے کوئی شرک ( بعضوں نے یہاں لفظ والشک نقل کیا ہے جو زیادہ قرین قیاس ہے ) کا حکم نکال بیٹھنا یا شرک کا کوئی کام کرنا کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمام کام نیت صحیح پر ہوتے ہیں اور ہر ایک آدمی کو وہی ملے گا جو نیت کرے اور عامر شعبی نے یہ آیت پڑھی ربنا لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا اور اس باب میں یہ بھی بیان ہے کہ وسواسی اور مجنون آدمی کا اقرار صحیح نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا جو زنا کا اقرار کررہا تھا ۔ کہیں تجھ کو جنون تو نہیں ہے اور حضرت علی ؓ نے کہا جناب امیر حمزہ نے میری اونٹنیوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے ( ان کے گوشت کے کباب بنائے ) آنحضرت ﷺ نے ان کو ملامت کرنے شروع کی پھر آپ نے دیکھا کہ وہ نشہ میں چور ہیں ۔ ان کی آنکھیں سرخ ہیں ۔ انہوں نے ( نشہ کی حالت میں ) یہ جواب دیا تم سب کیا میرے باپ کے غلام نہیں ہو ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچان لیاکہ وہ بالکل نشے میں چور ہیں ، آپ نکل کر چلے آئے ، ہم بھی آپ کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے ۔ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا مجنون اور نشہ والے کی طلاق نہیں پڑے گی ( اسے ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ) اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا نشے اور زبر دستی کی طلاق نہیںپڑے گی ( اس کو سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے وصل کیا ) اور عقبہ بن عامر جہنی صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا اگر طلاق کاوسوسہ دل میں آئے تو جب تک زبان سے نہ نکالے طلاق نہیں پڑے گی اورعطاءبن ابی رباح نے کہا اگر کسی نے پہلے ( انت طالق ) کہااس کے بعد شرط لگائی کہ اگر تو گھر میں گئی تو شرط کے مطابق طلاق پڑ جائے گی ۔ اور نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا اگر کسی نے اپنی عورت سے یوں کہا تجھ کو طلاق بائن ہے اگر تو گھر سے نکلی پھر وہ نکل کھڑی ہوئی تو کیاحکم ہے ۔ انہوں نے کہا عورت پر طلاق بائن پڑجائے گی ۔ اگر نہ نکلے تو طلاق نہیں پڑے گی اور ابن شہاب زہری نے کہا ( اسے عبدالرزاق نے نکالا ) اگر کوئی مرد یوں کہے میں ایسا ایسا نہ کروں تو میری عورت پر تین طلاق ہیں ۔ اس کے بعد یوں کہے جب میں نے کہاتھا تو ایک مدت معین کی نیت کی تھی ( یعنی ایک سال یا دو سال میں یا ایک دن یا دو دن میں ) اب اگر اس نے ایسی ہی نیت کی تھی تو معاملہ اس کے اور اللہ کے درمیان رہے گا ( وہ جانے اس کا کام جانے ) اور ابراہیم نخعی نے کہا ( اسے ابن ابی شیبہ نے نکالا ) اگر کوئی اپنی جورو سے یوں کہے اب مجھ کو تیری ضرورت نہیں ہے تو اس کی نیت پر مدار رہے گا اورابراہیم نخعی نے یہ بھی کہا کہ دوسری زبان والوں کی طلاق اپنی اپنی زبان میں ہوگی اور قتادہ نے کہا اگر کوئی اپنی عورت سے یوں کہے جب تجھ کو پیٹ رہ جائے تو تجھ پر تین طلاق ہیں ۔ اس کو لازم ہے کہ ہر طہر پر عورت سے ایک بار صحبت کرے اور جب معلوم ہو جائے کہ اس کو پیٹ رہ گیا ، اسی وقت وہ مرد سے جدا ہوجائے گی اور امام حسن بصری نے کہا اگرکوئی اپنی عورت سے کہا جا اپنے میکے چلی جا اور طلاق کی نےت کی تو طلاق پڑجائے گی اور ابن عباسؓ نے کہا طلاق تو ( مجبوری سے ) دی جاتی ہے ضرورت کے وقت اور غلام کو آزاد کرنا اللہ کی رضامندی کے لیے ہوتا ہے اور ابن شہاب زہری نے کہا اگر کسی نے اپنی عورت سے کہا تو میری جورو نہیں ہے اور اس کی نیت طلاق کی تھی تو طلاق پڑجائے گی اور علی ؓ نے فرمایا ( جسے بغوی نے جعد یات میں وصل کیا ) عمر ! کیا تم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ تین آدمی مرفوع القلم ہیں ( یعنی ان کے اعمال نہیں لکھے جاتے ) ایک تو پاگل جب تک وہ تندرست نہ ہو ، دوسرے بچہ جب تک وہ جوان نہ ہو ، تیسرے سونے والا جب تلک وہ بیدار نہ ہو ۔ اور علی ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ ہر ایک طلاق پڑ جائے گی مگر نادان ، بے وقوف ( جیسے دیوانہ ، نابالغ ، نشہ میں مست وغیرہ ) کی طلاق نہیں پڑے گی ۔تشریح : لفظ اغلاق کے معنی زبردست کے ہیں یعنی کوئی مرد پر جبر کرے طلاق دینے پر اوروہ دے دے تو طلاق واقع نہ ہوگی ۔ بعضوں نے کہا اغلاق سے غصہ مراد ہے یعنی اگر غصے اور طیش کی حالت میں طلاق دے تو طلاق نہ پڑے گی ۔ متاخرین حنابلہ کا یہی قول ہے لیکن اکثر علماءاورائمہ اس کے خلاف ہیں وہ کہتے ہیں طلاق تو اکثر غصے ہی کے وقت دی جاتی ہے پس اگر غصے میں طلاق نہ پڑے توہر طلاق دینے والا یہی کہے گا کہ میں اس وقت غصے میں تھا۔ بعضوں نے والشرک کی جگہ لفظ والشک پڑھا ہے یعنی اگر شک ہو گیا کہ طلاق کا لفظ زبان سے نکالا تھا یا نہیں تو طلاق واقع نہ ہوگی۔ یہ باب لا کر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حنفیہ کا رد کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں نشہ میں یا زبر دستی سے کوئی طلاق دے تو طلاق پڑ جائے گی۔ اسی طرح اگر اور کوئی کلمہ کہنا چاہتا تھا لیکن زبان سے یہ نکل گیا انت طالق تب بھی طلاق پڑجائے گی، اسی طرح اگر بھولے سے انت طالق کہہ دیا۔ لیکن اہلحدیث کے نزدیک ان میں سے کسی صورت میں طلاق نہیں پڑے گی جب تک طلاق سنت کے موافق نیت کرکے ایسے طہر میں نہ دے جس میں جماع نہ کیا ہو اور اگر ایسے طہر میں بھی نیت کرکے کسی نے تین طلاق دے دی تو ایک ہی طلاق پڑے گی۔ اسی طرح اہلحدیث کے نزدیک طلاق معلق باشرط مثلاً کوئی اپنی بیوی سے یوں کہے اگر تو گھر سے باہر نکلے گی تو تجھ پر طلاق ہے پھر وہ گھر سے نکلی تو طلاق نہیں پڑے گی کیونکہ ان کے نزدیک یہ طلاق خلاف سنت ہے اور خلاف سنت طلاق واقع نہیں ہوتی مگر ایک ہی صورت میں یعنی جب طہر میں تین طلاق ایک بارگی دے دی تو گو یہ طلاق نہ پڑ نے کے قائل ہوئے ہیں وہی مذہب صحیح عمدہ معلوم ہوتا ہے برخلاف ان علماءکے جو اس کے خلاف میں ہیں کیونکہ غیظ وغضب میں طلاق میں بھی انسان بے اختیار ہو جاتا ہے پس جب تک طلاق کی نیت کرکے نہ دے، اس وقت تک طلاق نہیں پڑے گی۔ اسی طرح طلاق معلق میں بھی جمہور علماءمخالف ہیں ۔ وہ کہتے ہیں جب شرط پوری ہو تو طلاق پڑ جائے گی ۔ بڑی آسانی اہلحدیث کے مذہب میں ہے اور ہمارے زمانہ کے مناسب حال بھی ان ہی کا مذہب ہے طلاق جہاں تک واقع نہ ہو وہیں تک بہتر ہے کیونکہ وہ ابغض مباحات میں سے ہے اور تعجب ہے ان لوگوں سے جنہوں نے ہمارے امام ہمام شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ پر تین طلاقوں کے مسئلہ میں بلوہ کیا، ان کو ستایا۔ ارے بے وقوفو! شیخ الاسلام نے تو وہ قول اختیار کیا جو حدیث اور اجماع صحابہ کے موافق تھا اور اس میں اس امت کے لیے آسانی تھی۔ ان کے احسان کا تو شکریہ ادا کرنا تھا نہ کہ ان پر بلوہ کرنا، ان کو ستانا، اللہ ان سے راضی ہو اور ان کو جزائے خیر دے جس مشکل میں ہم حضرت امام ابو حنیفہ  یا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی بے جا تقلید کی وجہ سے پڑ گئے تھے اس سے انہوں نے مخلصی دلوائی ( وحیدی از مولانا وحید الزماں مرحوم

5271.

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس نے آتے ہی آپ کو آواز دی: اللہ کے رسول! اس کم بخت نے زنا کیا ہے، اس نے خود کو مراد لیا۔ آپ ﷺ نے اس سے اعراض فرمایا لیکن اس نے بھی رخ ادھر کرلیا جس طرح آپ ﷺ کا چہرہ انور تھا۔ اس نے کہا : اللہ کے رسول اس نے زنا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے اس مرتبہ بھی منہ موڑ لیا لیکن وہ ہھر اس طرف آ گیا جدھر آپ ﷺ نے پھر اس سے اعراض فرمایا: پھر جب وہ چوتھی مرتبہ اس طرح رسول اللہ ﷺ کے سامنے آ گیا اوراپنے خلاف چار مرتبہ زنا کی شہادت دی تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: ”کیا تو دیوانہ ہے؟“ اس نے کہا نہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے صحابہ کرام‬ ؓ س‬ے فرمایا: ”اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔“ کیونکہ وہ شادی شدہ تھا۔