تشریح:
(1) اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور آپ کی سفارش میں فرق معلوم ہوا کہ آپ کا حکم تو وجوب کے لیے ہے جس کا ماننا ضروری ہے لیکن سفارش قبول کرنا ضروری نہیں۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے جواب میں سفارش قبول نہ کرنے کا عذر بیان کیا ہے کہ مجھے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ سے کوئی غرض نہیں ہے اور نہ ان سے رجوع ہی کرنے میں میری کوئی بھلائی پوشیدہ ہے۔ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے حضرت مغیث رضی اللہ عنہ کی اولاد بھی تھی، اس کے باوجود اس نے انکار کر دیا کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ’’تم اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرلو کیونکہ وہ تیری اولاد کا باپ ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث: 2075)
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام، عالم اور صاحب اختیار سے رعایا کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سفارش کرائی جا سکتی ہے۔ والله اعلم