Sahi-Bukhari:
Wedlock, Marriage (Nikaah)
(Chapter: Seeking to beget children)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5286.
سیدنا جابر ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تم رات کے وقت (اپنے شہر) آؤ تو اپنے اہل خانہ کے پاس رات کے وقت مت آؤ جب تک وہ عورتیں جن کے خاوند تادیر باہر رہے ہیں اپنے زیر ناف بال صاف نہ کرلیں اور پراگندہ بالوں میں کنگھی نہ کرلیں۔“ سیدنا جابر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھ پر جماع کرنے سے فرزند کی طلب ضروری ہے۔“ عبید الله نے وہب اور سیدنا جابر ؓ کے ذریعے سے نبی ﷺ سے کیس کے الفاظ بیان کرنے میں شعبی کی متابعت کی ہے۔
تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ بیوی سے جماع کا مقصد محض لطف اندوزی نہیں ہونا چاہیے بلکہ فرزند کے حصول کی نیت ہونی چاہیے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اولاد کی طلب کرو اور اس کی تلاش میں رہو، اولاد ثمرۂ قلب اور نور چشم ہے اور بانجھ عورت سے اجتناب کرو۔‘‘ (فتح الباري: 423/9) (2) انسان کو نکاح کرتے وقت یہ عظیم مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ نیک اولاد پیدا ہو جو مرنے کے بعد دنیا میں اچھی نشانی کے طور پر باقی رہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے۔ باقیات صالحات (باقی رہنے والی نیکیوں) میں نیک اولاد کو پہلا درجہ حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک اور فرمانبردار اولاد عطا فرمائے۔ آمين
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5045
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5246
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5246
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5246
تمہید کتاب
نکاح کے لغوی معنی ہیں: دو چیزوں کو ملادینا اور جمع کرنا اور حقیقی معنی کی تین صورتیں ہیں:٭عقد کے حقیقی معنی نکاح اور مجازی معنی مباشرت، یعنی جماع کرنا ہیں۔اسے امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔٭عقد مباشرت میں حقیقت اور نکاح میں مجاز ہے۔اسے فقہائے احناف نے اختیار کیا ہے۔٭عقد، نکاح اور مباشرت دونوں میں مشترک ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ معنی قرین قیاس ہیں۔ابو علی فارسی کہتے ہیں کہ عرب لوگ اس میں لطیف سافرق کرتے ہیں۔جب وہ کہیں کے فلاں شخص نے فلاں عورت یا فلاں لڑکی سے نکاح کیا ہے تو اس سے ان کی مراد عقد ہے اور اگر یہ کہیں کے فلاں مرد نے اپنی عورت یا اپنی بیوی سے نکاح کیا ہے تو اس سےمراد وطی (مباشرت) ہے نکاح کے لغوی معنی کی تفصیل کے پیش نظر اس کے اصطلاحی معنی میں معمولی سا اختلاف واقع ہوا ہے مگر ان تمام تعریفات کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح ایک شرعی معاہدہ ہے جو دو مسلمان مرد اور عورت یا مسلمان مرد اور کتابیہ عورت جائز طریقے سے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل اور عصمت وعزت کی حفاظت کے لیے کرتے ہیں۔جس طرح دیگر تمام معاملات میں دو آدمی آپس میں معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کرنے کے بعد دونوں پر اس وقت تک اس کی پابندی ضروری ہوتی ہے جب تک یہ یقین نہ کرلیا جائے کہ اس معاہدے کو باقی رکھنے میں کسی نہ کسی فریق کا کوئی مادی یا اخلاقی نقصان یقینی ہے،اس لیے شریعت نکاح کے تعلق کو بھی ایک مضبوط معاہدہ قرار دیتی ہے اوراس معاہدے کو اس وقت تک توڑنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک یہ یقین نہ ہوجائے کہ اس کے توڑنے ہی میں اچھائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس معاہدے کو عقدِ نکاح سے تعبیر کیا ہے۔عقد نکاح کے معنی گرہ دینے اور مضبوط باندھنے کے ہیں، یعنی نکاح کے ذریعے سے دونوں میاں بیوی مل کر اور بندھ کر ایک خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں اور اس عالم رنگ وبو میں ایک صالح معاشرہ تشکیل دینے کا معاہدہ کرتے ہیں جس پر ایک صالح تہذیب اور پاکیزہ تمدن کا دارومدار ہے۔قرآن کریم نے نکاح کے مقابلے میں سفاح(بدکاری) کا لفظ اس مقصد کے پیش نظر استعمال کیا ہے کہ جس طرح نکاح کے ذریعے سے ایک پاکیزہ خاندان اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے اسی طرح سفاح کے ذریعے سے خاندان کے وجود اور معاشرے کی پاکیزگی میں ایک ایسا خلا پیدا ہوتا ہے کہ اس کی موجودگی میں کوئی مضبوط تمدن پروان نہیں چڑھ سکتا۔قرآن کریم نے بدکار مردوں کے لیے مُسَافِحِين اور فاحشہ عورتوں کے لیے مُسَافِحَات کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز قرآن کریم نے بار بار سفاح سے بچنے کی تاکید کی ہے اور نکاح کے ذریعے سے پاک دامنی کی ترغیب دی ہے۔ہمارے نزدیک عقد نکاح کی دو حیثیتیں ہیں: ایک حیثیت سے اس کا تعلق عبادات سے ہے اور دوسری حیثیت سے اس کا تعلق معاملات سے ہے۔عبادات سے اس کا تعلق اس طرح ہے کہ عقد نکاح کے بعد اولاد کی تربیت، والدین اور دیگر رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک، نیز ان کے حقوق کی ادائیگی شریعت میں عبادت کا درجہ رکھتی ہے اور اجروثواب کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ خاندانی تعلقات کے ذریعے سے انسان بے شرمی اور بے حیائی سے محفوظ رہتا ہے اور بہت سے مواقعوں پر ظلم وزیادتی سے بچتا ہے اور یہ تعلقات آپس میں ہمدردی کے جذبات کی پرورش کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتے ہیں۔عقد نکاح کا معاملات سے تعلق اس طرح ہے کہ ان کے ذریعے سے حقوق العباد ادا کرنے کی ابتدا ہوتی ہے اور اس میں کچھ مالی لین دین بھی ہوتا ہے،نیز اس عقد نکاح میں خریدوفروخت کی طرح ایجاب وقبول ہوتا ہے۔اگر اس سلسلے میں کوئی کوتاہی ہوجائے تو قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے،یعنی عقد نکاح کا معاملہ دیوانی قانون کے تحت آتاہے۔اللہ تعالیٰ نے عقد نکاح کو اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔"(الروم: 30/21) دوسرے مقام پر اس رشتۂ ازدواج کو ایک نعمت قرار دیا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" وہی ہے جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اس نے نسب اور سسرال کا سلسلہ چلایا۔"(الفرقان: 25/54)ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہمارے ہاں عورت بہو بن کر آتی ہے تو اس سے نسبی رشتے داری مستحکم ومضبوط ہوتی ہے اور جب ہماری بیٹیاں دوسروں کے ہاں بہو بن کر جاتی ہیں تو سسرالی رشتہ مضبوط ہوتا ہے،پھر ان دونوں قسم کی رشتے داریوں کے باہمی تعلقات سے پورا معاشرہ جڑ جاتا ہے اور ایک ہی جیسا تمدن وجود میں آتا ہے۔عقد نکاح کی اس اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں اس کے متعلق تفصیل سے احکام بیان ہوئے ہیں۔ان کے حقوق وآداب کو ایک خاص انداز سے ذکر کیا گیا ہے تاکہ انسانی تہذیب کی یہ بنیادی اینٹ اپنی جگہ پر برقرار رہے، بصورت دیگر یا تو پوری عمارت زمین بوس ہوجائے گی یا ایسی ٹیڑھی اور کمزور ہوگی جس کے گرنے کا ہر وقت خطرہ لگارہے گا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت اس کی اہمیت وافادیت، شرائط، حقوق وآداب اور مسائل واحکام کو بیان کیا ہے اور انھیں آسان اور سادہ اسلوب وطریقے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔انھوں نے اس کے لیے دوسواٹھائیس (228) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے،جن میں پینتالیس(45) معلق اور متابع کی حیثیت سے ہیں۔مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے چھتیس(36) آثار بھی نقل کیے ہیں،پھر انھوں نے ان احادیث وآثار پر تقریباً ایک سو پچیس (125) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں اور ہر عنوان ایک مستقل فتوے کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر عنوان کو قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے۔اس عنوان میں صرف نکاح کے مسائل ہی نہیں بلکہ اس کے متعلقات کو بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔بہر حال اس نکاح کے ذریعے سے ایک اجنبی اپنا اور ایک بے گانہ یگانہ بن جاتا ہے۔اس تعلق کی بنا پر ایک مرد کسی کا باپ اور کسی کا بیٹا بنتا ہے،کسی کا دادااور کسی کا پوتا ہوتا ہے،کسی کا ماموں اور کسی کا چچا ہوتا ہے، کس کا بھائی اور کسی کا بہنوئی بنتا ہے۔اس تعلق کی بنیاد پر ایک عورت کسی کی ماں،کسی کی دادی، کسی کی نانی، کسی کی بیٹی اور کسی کی بہن بنتی ہے،گویا تمام تعلقات نکاح کی پیداوار ہیں۔انھی تعلقات سے انسان مہرومحبت، الفت ومودت، ادب وتمیز، شرم وحیا اور عفت وپاکبازی سیکھتا ہے۔اگر نکاح کو ہٹا لیا جائے یا نکاح کی رسم تو ہو لیکن اس کے حقوق وآداب اور حدودوشرائط کا لحاظ نہ رکھا جائے تو اس کے ذریعے سے جو معاشرہ تشکیل پائے گا اس میں الفت ومحبت،ہمدردی وغمگساری اور خوش خلقی کے بجائے ظلم وزیادتی،سرد مہری،بے شرمی اور بے حیائی کا دور دورہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس نکاح کے ذریعے سے ان تمام مذموم صفات کی روک تھام کی ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:" اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمھیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنس سے اس کا جوڑا پیدا کیا،پھر اس جوڑے کے ذریعے سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو پھیلایا۔اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتوں کے حقوق کا لحاظ رکھو،اللہ تعالیٰ تمہارا مکمل طور پر نگران ہے۔"(النساء: 4/1)اس آیت کو عقد نکاح کے موقع پر خطبۂ نکاح میں پڑھا جاتا ہے تاکہ رشتۂ نکاح کی یہ ذمے داری اور فرض ذہن میں تازہ ہوجائے کہ یہ رشتہ تعلقات جوڑنے کے لیے قائم کیا جارہا ہے توڑنے کے لیے نہیں اور یہ چھوٹا سا خاندان جو آج وجود میں آرہا ہے یہ پہلی تجربہ گاہ ہے۔اگر وہ اس چھوٹے سے کنبے کا حق ادانہ کرسکا تو خاندان، معاشرے اور پوری انسانی دنیا کا حق بھی ادا نہ کرسکے گا۔اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث اور اخذ کردہ احکام ومسائل کا مطالعہ اس نیت سے کیا جائے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ایک انقلاب لانا ہے اور دنیا میں ایک صالح معاشرہ قائم کرنا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس معیار کے مطابق پورا اترنے کی توفیق دے۔آمين
تمہید باب
شادی کا مقصد ملاپ سے صرف لطف اندوز ہونا نہ ہو بلکہ غرض طلب اولاد ہونی چاہیے اگرچہ حدیث میں اس کی صراحت نہیں ہے لیکن حدیث میں الكيس کی تفسیر الولد سے کی گئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تفسیر سے اسی مقصد کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔والله اعلم
سیدنا جابر ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جب تم رات کے وقت (اپنے شہر) آؤ تو اپنے اہل خانہ کے پاس رات کے وقت مت آؤ جب تک وہ عورتیں جن کے خاوند تادیر باہر رہے ہیں اپنے زیر ناف بال صاف نہ کرلیں اور پراگندہ بالوں میں کنگھی نہ کرلیں۔“ سیدنا جابر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھ پر جماع کرنے سے فرزند کی طلب ضروری ہے۔“ عبید الله نے وہب اور سیدنا جابر ؓ کے ذریعے سے نبی ﷺ سے کیس کے الفاظ بیان کرنے میں شعبی کی متابعت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ بیوی سے جماع کا مقصد محض لطف اندوزی نہیں ہونا چاہیے بلکہ فرزند کے حصول کی نیت ہونی چاہیے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اولاد کی طلب کرو اور اس کی تلاش میں رہو، اولاد ثمرۂ قلب اور نور چشم ہے اور بانجھ عورت سے اجتناب کرو۔‘‘ (فتح الباري: 423/9) (2) انسان کو نکاح کرتے وقت یہ عظیم مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ نیک اولاد پیدا ہو جو مرنے کے بعد دنیا میں اچھی نشانی کے طور پر باقی رہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے۔ باقیات صالحات (باقی رہنے والی نیکیوں) میں نیک اولاد کو پہلا درجہ حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک اور فرمانبردار اولاد عطا فرمائے۔ آمين
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سیار نے، ان سے شعبی نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ (غزوہ تبوک سے واپسی کے وقت) فرمایا، جب رات کے وقت تم مدینہ میں پہنچو تو اس وقت تک اپنے گھروں میں نہ جانا جب تک ان کی بیویاں جو مدینہ منورہ میں موجود نہیں تھے، اپنا موئے زیر ناف صاف نہ کر لیں اورجن کے بال پراگندہ ہوں وہ کنگھا نہ کر لیں۔ جابر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، پھر ضروری ہے کہ جب تم گھر پہنچو تو خوب خوب کیس کیجیو۔ شعبی کے ساتھ اس حدیث کو عبیداللہ نے بھی وہب بن کیسان سے، انہوں نے جابر ؓ سے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے روایت کیا، اس میں بھی کیس کا ذکر ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت کتاب البیوع میں موصولاً گزر چکی ہے۔ ابو عمرو توقانی نے اپنی کتاب ''معاشرة الأھلین'' میں نقل کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اولاد ڈھونڈو، اولاد ثمرئہ قلب اور نور چشم ہے اور بانجھ عورت سے پر ہیز کرو۔ اسی واسطے ایک حدیث میں آیا ہے کہ بانجھ عورت سے بچو۔ دوسری حدیث میں ہے کہ خاوند سے محبت رکھنے والی، بہت بچے جننے والی سے نکاح کرو، میں قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا۔ شادی کرنے سے آدمی کو اصل غرض یہی رکھنی چاہئے کہ اولاد صالح پیدا ہو جو مرنے کے بعد دنیا میں اس کی نشانی رہے۔ اس کے لیے دعائے خیر کرے۔ اسی لیے باقیات الصالحات میں اولاد کو اول درجہ حاصل ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو نیک فرمانبردار اور صالح اولاد عطا کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "If you enter (your town) at night (after coming from a journey), do not enter upon your family till the woman whose husband was absent (from the house) shaves her pubic hair and the woman with unkempt hair, combs her hair" Allah's Apostle (ﷺ) further said, "(O Jabir!) Seek to have offspring, seek to have offspring!"