تشریح:
(1) آغاز ہجرت میں ایک معاشرتی مسئلہ مسلمانوں کے لیے کئی الجھنوں کا باعث بن گیا تھا وہ یہ کہ مکے میں بہت سے ایسے لوگ تھے جو خود مسلمان ہو چکے تھے مگر ان کی بیویاں کافر تھیں یا بیویاں مسلمان ہو چکی تھیں مگر ان کے شوہر کافر تھے۔ ہجرت کرنے سے یہ مسئلہ مزید سنگین ہو گیا۔ اس اعتبار سے ہجرت کرنے والوں کی تین قسمیں تھیں: ٭ میاں بیوی دونوں ہجرت کر کے مکے سے نکل آئے جیسے حضرت عثمان اور ان کی اہلیہ۔ ایسے لوگوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ٭خاوند ہجرت کر کے مدینے آ گیا مگر اس کی بیوی بحالت کفر مکے ہی میں مقیم رہی جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہجرت کر کے مدینے آ گئے مگر ان کی دو بیویاں بحالت کفر مکے میں تھیں۔ ٭بیوی مسلمان ہو کر مدینے آ گئی مگر اس کا کافر شوہر مکے میں رہا جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا مدینے آ گئیں مگر ان کا کافر شوہر ابو العاص مکے ہی میں رہا۔ مردوں کے لیے یہ مسئلہ اتنا سنگین نہ تھا کیونکہ وہ دوسرا نکاح کر سکتے تھے مگر عورتوں کے لیے اتنی مدت تک رشتۂ ازدواج میں منسلک رہنا بہت مشکل تھا، اس لیے قرآن میں ان کا حل یوں پیش کیا گیا کہ ایسی عورتیں کافروں کے لیے حلال نہیں اور نہ وہ ان عورتوں ہی کے لیے حلال ہیں۔ (الممتحنة:10)
(2) اس سے دو مسئلے ثابت ہوئے: ٭اختلاف دین سے نکاح خود بخود ختم ہو جاتا ہے، یعنی کافر شوہر اور مومن بیوی یا مومن مرد اور کافر بیوی کا نکاح خود بخود ٹوٹ جاتا ہے۔٭اختلاف دارین سے بھی نکاح ٹوٹ جاتا ہے، یعنی خاوند دارالاسلام میں ہے اور بیوی دارالحرب میں ہے تو نکاح خود بخود ٹوٹ جائے گا کیونکہ اب یہ رشتہ قائم رکھنا محال ہے۔ کافرعورت اگر مسلمان ہو کر مسلمانوں کے پاس آ جائے تو تین حیض عدت گزار کر عقد ثانی کر سکتی ہے کیونکہ وہ مسلمان ہونے اور ہجرت کرنے کی وجہ سے اب آزاد عورتوں میں شامل ہو گئی جن کی عدت تین حیض ہے۔ اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل کے بعد نکاح کر سکتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ’’تم خود بھی کافر عورتوں کو اپنے نکاح میں نہ رکھو۔‘‘ (الممتحنة: 10) اسی قاعدے کی بنا پر قریبہ بنت ابی امیہ اور ام حکم بنت ابی سفیان دونوں کافر عورتوں کو طلاق دی گئی تو انھوں نے عدت گزار کر عقد ثانی کیا۔ واللہ اعلم