قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: معلق ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الطَّلاَقِ (بَابُ إِذَا أَسْلَمَتِ المُشْرِكَةُ أَوِ النَّصْرَانِيَّةُ تَحْتَ الذِّمِّيِّ أَوِ الحَرْبِيِّ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ عَبْدُ الوَارِثِ: عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: «إِذَا أَسْلَمَتِ النَّصْرَانِيَّةُ قَبْلَ زَوْجِهَا بِسَاعَةٍ حَرُمَتْ عَلَيْهِ» وَقَالَ دَاوُدُ: عَنْ إِبْراهِيمَ الصَّائِغِ، سُئِلَ عَطَاءٌ: عَنِ امْرَأَةٍ مِنْ أَهْلِ العَهْدِ أَسْلَمَتْ، ثُمَّ أَسْلَمَ زَوْجُهَا فِي العِدَّةِ، أَهِيَ امْرَأَتُهُ؟ قَالَ: «لاَ، إِلَّا أَنْ تَشَاءَ هِيَ بِنِكَاحٍ جَدِيدٍ وَصَدَاقٍ» وَقَالَ مُجَاهِدٌ: «إِذَا أَسْلَمَ فِي العِدَّةِ يَتَزَوَّجُهَا» وَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {لاَ هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلاَ هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ} [الممتحنة: 10] وَقَالَ الحَسَنُ، وَقَتَادَةُ: فِي مَجُوسِيَّيْنِ أَسْلَمَا: هُمَا عَلَى نِكَاحِهِمَا، وَإِذَا سَبَقَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ وَأَبَى الآخَرُ بَانَتْ، لاَ سَبِيلَ لَهُ عَلَيْهَا وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ: امْرَأَةٌ مِنَ المُشْرِكِينَ جَاءَتْ إِلَى المُسْلِمِينَ، أَيُعَاوَضُ زَوْجُهَا مِنْهَا، لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {وَآتُوهُمْ مَا أَنْفَقُوا} [الممتحنة: 10] قَالَ: لاَ، إِنَّمَا كَانَ ذَاكَ بَيْنَ النَّبِيِّ ﷺ وَبَيْنَ أَهْلِ العَهْدِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ: هَذَا كُلُّهُ فِي صُلْحٍ بَيْنَ النَّبِيِّ ﷺوَبَيْنَ قُرَيْشٍ

5288. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي يُونُسُ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: كَانَتِ المُؤْمِنَاتُ إِذَا هَاجَرْنَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْتَحِنُهُنَّ بِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا، إِذَا جَاءَكُمُ المُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ} [الممتحنة: 10] إِلَى آخِرِ الآيَةِ. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنَ المُؤْمِنَاتِ فَقَدْ أَقَرَّ بِالْمِحْنَةِ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَقْرَرْنَ بِذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِنَّ، قَالَ لَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْطَلِقْنَ فَقَدْ بَايَعْتُكُنَّ» لاَ وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ، غَيْرَ أَنَّهُ بَايَعَهُنَّ بِالكَلاَمِ، وَاللَّهِ مَا أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النِّسَاءِ إِلَّا بِمَا أَمَرَهُ اللَّهُ، يَقُولُ لَهُنَّ إِذَا أَخَذَ عَلَيْهِنَّ: «قَدْ بَايَعْتُكُنَّ» كَلاَمًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا ، ان سے خالد حذاءنے ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس ؓنے کہ اگر کوئی نصرانی عورت اپنے شوہر سے تھوڑی دیر پہلے اسلام لائی تووہ اپنے خاوند پر حرام ہوجاتی ہے اور داؤد نے بیان کیا کہ ان سے ابراہیم الصائغ نے کہ عطاءسے ایسی عورت کے متعلق پوچھا گیا جو ذمی قوم سے تعلق رکھتی ہو اور اسلام قبول کرلے ، پھر اس کے بعد اس کا شوہر بھی اس کی عدت کے زمانہ ہی میں اسلام لے آئے تو کیا وہ اسی کی بیوی سمجھی جائے گی ؟ فرمایا کہ نہیں البتہ اگر وہ نیا نکاح کرنا چاہے ، نئے مہر کے ساتھ ( تو کر سکتا ہے ) مجاہد نے فرمایا کہ ( بیوی کے اسلام لانے کے بعد ) اگر شوہر اس کی عدت کے زمانہ میں ہی اسلام لے آیا تو اس سے نکاح کر لینا چاہیئے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” نہ مومن عورتیں مشرک مردوں کے لیے حلال ہیں اور نہ مشرک مرد مومن عورتوں کے لیے حلال ہیں ۔ “ اور حسن اور قتادہ نے دو مجو سیوں کے بارے میں ( جو میاں بیوی تھے ) جو اسلام لے آئے تھے ، کہا کہ وہ دونون اپنے نکاح پر باقی ہیں اور اگر ان میں سے کوئی اپنے ساتھی سے ( اسلام میں ) سبقت کر جائے اور دوسرا انکار کردے تو عورت اپنے شوہر سے جدا ہو جاتی ہے اور شوہر اسے حاصل نہیںکر سکتا ( سو ا نکاح جدید کے ) اور ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاءسے پوچھا کہ مشرکین کی کوئی عورت ( اسلام قبول کرنے کے بعد ) اگر مسلمانوں کے پاس آئے تو کیا اس کے مشرک شوہر کو اس کا مہر واپس کر دیا جائے گا ؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” اور انہیں وہ واپس کردو جو انہوں نے خرچ کیا ہو ۔ “ عطاءنے فرمایا کہ نہیں ، یہ صرف نبی کریم ﷺ اور معاہد مشرکین کے درمیان تھا اور مجاہد نے فرمایا کہ یہ سب کچھ حضور اکرم ﷺ اور قریش کے درمیان باہمی صلح کی وجہ سے تھا ۔

5288.

نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب اہل ایمان خواتین ہجرت کر کے نبی ﷺ کی طرف آتیں تو آپ ان کا امتحان لیتے کیونکہ ارشاد باری تعالٰی ہے: ”اے ایمان والو! جب مومن خواتین تمہارے پاس ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو۔ ۔ ۔ ۔ “ سدہ عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ مومنات میں سے جو جو عورت اس شرط کا اقرار کر لیتی وہ امتحان میں کامیاب خیال کی جاتی چنانچہ جب وہ اس شرط کا اقرار کر لیتیں تو رسول اللہ ﷺ ان سے فرماتے: ”اب جاؤ میں نے تم سے عہد لے لیا ہے۔“ اللہ کی قسم! بیعت لیتے وقت رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ کبھی نہیں چھوا۔ آپ ﷺ ان خواتین سے زبانی کلامی بیعت لیتے تھے۔ اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے صرف ان چیزوں پر عہد لیا جن کا اللہ تعالٰی نے آپ کو حکم دیا تھا۔ بیعت لینے کے بعد آپ ان سے فرماتے: ”میں نے تم سے بیعت لے لی ہے۔“ یہ آپ صرف زبان سے کہتے تھے۔