تشریح:
(1) ان تمام احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخصوص اوقات میں مخصوص اشارات کا ذکر ہے، چنانچہ پہلی حدیث میں آپ نے اپنی انگلیوں سے نوّے (90) کی گرہ لگائی جو اشارے ہی کی ایک قسم ہے۔ دوسری حدیث میں جمعہ کی مبارک گھڑی کی قلت کو اشارے سے بیان کیا۔ تیسری حدیث میں قصاص کے لیے سر کے اشارے کو قابل اعتبار سمجھا اور یہودی کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ جب آپ نے قصاص کو اشارے سے ثابت کیا ہے تو طلاق میں تو بطریق اولیٰ اس کا اعتبار کیا جائے گا۔
(2) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ بعض اوقات اشارہ، بولنے کے قائم مقام ہوتا ہے اور اس سے احکام بلکہ قصاص جیسا حکم ثابت ہوتا ہے۔ ان میں کچھ اشارے ایسے بھی ہیں جن کی وضاحت زبان سے کی جا سکتی تھی لیکن آپ نے ان کی وضاحت اشارے سے کی ہے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ جو انسان بول نہ سکتا ہو تو اس کے اشارے پر عمل ہوگا اور اسے معتبر خیال کیا جائے گا۔
(3) اگرچہ ان احادیث میں کوئی حدیث بھی عنوان کی خبر اول، یعنی اشارے سے طلاق پر دلالت نہیں کرتی لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارے سے ثابت شدہ امور پر طلاق کو قیاس کیا ہے۔ ان امور میں سے ایک قصاص بھی ہے جو قدر و منزلت اور اہمیت میں طلاق سے کہیں بڑھ کرہے۔ واللہ أعلم