تشریح:
(1) آیت کریمہ میں حاملہ کی عدت بیان ہوئی ہے کہ اگر اسے طلاق مل جائے تو وضع حمل کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ اگر اس خاوند فوت ہو گیا ہو اور وہ حمل سے ہو تو بھی اس کی عدت وضع ہی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف ہے کہ اگر کوئی عورت شوہر کی وفات کے وقت حمل سے ہو تو وہ لمبی مدت بطور عدت گزارے گی، لیکن باقی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس کے خلاف ہیں کیونکہ سورۂ طلاق جس میں حاملہ عورت کی عدت بیان ہوئی ہے، وہ سورۂ بقرہ کے بعد نازل ہوئی تھی جس میں اس عورت کی عدت بیان کی گئی ہے جس کا خاوند فوت ہو چکا ہو۔
(2) واضح رہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سورۂ بقرہ کی آیت: 234 کو بطور دلیل پیش کرتے تھے کہ جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور وہ حمل سے ہو تو اسے آخری مدت پوری کرنی چاہیے۔ حضرت ابو سلمہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: کیا اللہ تعالیٰ نے"آخر أجلين'' کہا ہے۔ اگر خاوند کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن گزر جائیں اور اس نے بچہ جنم نہ دیا ہو تو کیا نکاح کر سکتی ہے؟ یہ سن کر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے غلام سے کہا: جاؤ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ کو آؤ۔ بہرحال حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے، خواہ اس کا خاوند فوت ہوا ہو یا اسے طلاق ملی ہو۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 573/9)