تشریح:
(1) حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کا موقف تھا کہ جس عورت کو تیسری طلاق مل جائے اس کے لیے خاوند کے ذمے رہائش یا خرچہ نہیں ہے اور اس انکار کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں، لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے سختی کے ساتھ اس موقف سے انکار کیا بلکہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس موقف کے متعلق اپنی شدید ناگواری کا اظہار کرتی تھیں۔ اس واقعے کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے خاوند ابو عمر بن حفص رضی اللہ عنہ نے انھیں آخری طلاق دی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فتویٰ پوچھنے آئیں کہ میں اپنے گھر سے نکل کر دوسری جگہ عدت گزار سکتی ہوں یا نہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک نابینا شخص حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہونے کی اجازت دی، لیکن مروان بن حکم مطلقہ عورت کے گھر سے نکلنے کا انکار کرتے تھے۔ حضرت عروہ کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی اس بات کا شدت سے انکار کیا۔ (صحیح مسلم، الطلاق، حدیث: 3702)
(2) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ مطلقہ عورت اگر دوران عدت میں محسوس کرے کہ اس کے گھر میں کوئی اچانک گھس سکتا ہے تو کسی دوسری جگہ عدت پوری کرسکتی ہے، اسی طرح اگر عورت خاوند کے اہل خانہ سے بدتمیزی کرتی ہو تو انھیں حق ہے کہ وہ اسے وہاں سے نکال دیں اور وہ کسی دوسری جگہ عدت کے ایام پورے کرے۔ واللہ أعلم