تشریح:
(1) دور جاہلیت میں جس عورت کا خاوند فوت ہو جاتا وہ ایک سال تک عدت گزارتی اور انتہائی بدترین طریقے سے زندگی کے یہ دن پورے کرتی جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔ اس کا اشارہ قرآنِ کریم میں بھی ہے: ’’اور جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں، وہ اپنی عورتوں کے حق میں ایک سال تک خرچہ دینے کی وصیت کر جائیں، نیز انھیں اس مدت میں گھر سے نہ نکالا جائے۔‘‘ (البقرة: 240) پھر ان کے متعلق ایک دوسرا حکم نازل ہوا کہ وہ چار ماہ دس دن تک عدت پوری کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار ماہ دس دن تک عدت میں رکھیں۔‘‘ (البقرۃ:234) یہ اس صورت میں ہے جب بیوی حاملہ نہ ہو، حاملہ ہونے کی صورت میں اس کی عدت وضع حمل ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے۔ چار ماہ دس دن عدت گزارنے میں یہ حکمت ہے کہ عورت کے پیٹ میں بچے کی تخلیق اور اس میں روح پھونکنے کا معاملہ ایک سو بیس دن کے بعد ہوتا ہے جس کے چار ماہ بنتے ہیں، چونکہ چاند کی کمی بیشی سے فرق ہو سکتا ہے، اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے اس تعداد پر دس دن کا اضافہ کیا گیا ہے۔ (فتح الباري: 603/9)
(2) دوران عدت میں وہ زیب و زینت نہیں کرے گی جیسا کہ ایک حدیث میں ہے: ’’زمانۂ عدت میں رنگ دار لباس نہ پہنے، لیکن رنگے ہوئے سوت کا کپڑا پہن سکتی ہے، سرمہ نہ لگائے اور خوشبو بھی استعمال نہ کرے۔‘‘ (صحیح البخاري، الطلاق، حدیث: 5341) ایک روایت میں ہے کہ وہ مہندی نہ لگائے۔ (سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2302) سنن نسائی میں ہے کہ وہ کنگھی بھی نہ کرے۔ (سنن النسائي، الطلاق، حدیث: 3564) اس عورت کے علاوہ دیگر عورتوں، یعنی مطلقہ وغیرہ پر عدت تو ہے لیکن سوگ کی پابندی نہیں ہے۔