تشریح:
(1) امام مجاہد رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ چار مہینے دس دن عدت گزارنے کا حکم پہلے نازل ہوا تھا کہ وہ یہ عدت خاوند کے گھر والوں کے پاس گزارے اور ایسا کرنا واجب تھا، پھر دوسری آیت نازل ہوئی جس میں ایک سال عدت گزارنے کے متعلق حکم تھا، اب سال پورا کرنے کے لیے سات ماہ بیس دن وصیت کے مطابق عمل کرتے ہوئے اپنے خاوند کے گھر میں گزارے اگر چاہے تو اپنے میکے جا کر ان کو پورا کرے۔ ان کے نزدیک ناسخ، منسوخ سے پہلے نازل نہیں ہو سکتا، اس لیے انہوں نے دونوں کو جمع کرنے کی یہ صورت بیان کی ہے جبکہ عام مفسرین کا کہنا ہے کہ ایک سال عدت گزارنے پر مشتمل آیت کریمہ منسوخ ہے اور چار ماہ دس دن کی آیت اس کی ناسخ ہے۔ ابن بطال نے کہا ہے کہ کسی مفسر نے آیات مذکورہ کی یہ تفسیر نہیں کی اور نہ کسی فقیہ نے یہ کہا ہے بلکہ تمام فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ سال والی آیت منسوخ ہے۔ اور رہائش بھی عدت کے تابع ہے۔ جب چار ماہ دس دن کی عدت سے سال بھر کی عدت منسوخ ہو گئی تو رہائش کے متعلق خاوند کی ذمے داری بھی منسوخ ہو گئی۔ (فتح الباري: 611/9)
(2) ہمارے رجحان کے مطابق جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو اس پر چار ماہ دس دن عدت گزارنا واجب ہے اور وہ اسی مکان میں عدت گزارے جہاں وہ شوہر کے ساتھ مقیم تھی یا جہاں اسے خاوند کے متعلق وفات کی اطلاع ملی جیسا کہ حضرت فریعہ بنت مالک رضی اللہ عنہا کا خاوند فوت ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے میکے لوٹ جانے کے متعلق دریافت کیا کہ میرے شوہر نے اپنی ملکیت میں کوئی مکان نہیں چھوڑا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے میکے جا سکتی ہو‘‘ ابھی وہ حجرے سے باہر نہیں نکلی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز دی اور فرمایا: ’’تم اپنے پہلے مکان ہی میں رہو جب تک تمہاری عدت پوری نہ ہو جائے۔‘‘ چنانچہ انہوں نے چار ماہ دس دن کی عدت اسی سابقہ مکان میں پوری کی۔ (سنن أبي داود، الطلاق، حدیث: 2300) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اس گھر میں رہو جہاں تجھے خاوند کے فوت ہونے کی خبر ملی حتی کہ ایام عدت پورے ہو جائیں۔‘‘ (مسند أحمد: 370/6)
(3) بعض اہل علم حدیث کے ان الفاظ سے عورت کو پابند کرتے ہیں کہ وہ ایام عدت وہیں گزارے جہاں اسے خاوند کی وفات کے متعلق اطلاع ملی ہو، خواہ وہ کسی کے گھر بطور مہمان ٹھہری ہو، اس طرح کی بے جا پابندی شریعت کے منشا کے خلاف ہے۔ بہرحال اس عورت کو اپنے خاوند کے گھر عدت کے ایام گزارنے ہوں گے، البتہ اس حکم سے درج ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں: ٭ میاں بیوی کرائے کے مکان میں رہائش رکھے ہوئے تھے۔ خاوند کی وفات کے بعد آمدنی کے ذرائع محدود ہو گئے یا مالک مکان نے مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا یا اپنے مکان میں عزیز و اقارب نے اتنا تنگ کیا کہ وہاں ایام پورے کرنا مشکل ہو گئے تو وہ کسی دوسرے مکان میں عدت گزار سکتی ہے۔ ٭ میاں بیوی کسی دوسرے ملک میں تھے۔ بیوی اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے اپنے ملک آئی تو دوسرے ملک میں اس کا خاوند فوت ہو گیا۔ اب ویزے وغیرہ کا مسئلہ بن گیا تو وہ اپنے ملک میں اپنے والدین کے ہاں عدت گزار سکتی ہے۔ ٭ عورت خانہ بدوش ہونے کی وجہ سے کسی مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھی، اسی حالت میں اس کا خاوند فوت ہو گیا تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ چار ماہ دس دن اسی مقام پر گزارے بلکہ جہاں قافلہ ٹھہرے گا وہ اس کے ساتھ عدت کے ایام گزارتی رہے گی۔ واللہ أعلم