تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ تم معروف طریقے کے مطابق اتنا مال لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو جائے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2211)
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر شوہر گھر میں موجود نہ ہو اور گھر کے اخراجات کا بندوبست نہ کر کے گیا ہو تو اس کے مال سے اتنا خرچ لیا جا سکتا ہے جو گھر کے اخراجات کے لیے کافی ہو۔
(3) اس حدیث سے درج ذیل مسائل کا اثبات ہوتا ہے: ٭ بیوی کے خرچے کی مقدار مقرر نہیں ہے کیونکہ آپ نے فرمایا: ’’تم اتنا لے لو جو تمہیں کافی ہو۔‘‘ ٭ بیوی کا خرچ بچوں کے خرچ کی جنس سے ہے، یعنی دونوں معروف طریقے سے ادا کیے جائیں گے۔ ٭ اولاد کے اخراجات کا ذمہ دار صرف اس کا والد ہے۔ ٭ اگر عورت اپنے شوہر کے مال سے حسب کفایت خرچہ لے سکتی ہو تو اسے فسخ نکاح کا حق نہیں ہے۔ ٭ جن واجبات کی حد مقرر نہ ہو، ان میں عرف کو ملحوظ رکھا جائے گا۔ ٭ اگر شوہر اور والد اپنے واجبات ادا نہ کریں تو کسی بھی طریقے سے ان سے وصول کیے جا سکتے ہیں۔