تشریح:
(1) یہ اس صورت میں ہے جب عورت کو مرد کی رضا مندی معلوم ہو، نیز اگر عورت دیانت دار ہی نہیں تو اسے خرچ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، اس طرح کا صدقہ و خیرات واجب نہیں۔ اس کے باوجود بیوی کو خرچ کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن جو خرچ خاوند کے ذمے ہے اور اس پر واجب ہے، وہ تو بالاولیٰ لے سکتی ہے۔
(2) صدقہ کرنے سے نصف ثواب عورت کو اس لیے ملتا ہے کہ جو طعام گھر میں موجود ہے، اس میں وہ خود بھی شریک ہے، اس لیے نصف اجر کی حق دار ٹھہرائی گئی ہے۔ (عمدة القاري: 371/14، 372)