تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کو گھر کے کام کاج روٹی پکانا، صفائی کرنا اور چکی پیسنا وغیرہ کی طاقت ہو اور متعارف ہو کہ وہ یہ کام بآسانی کر سکتی ہے تو شوہر کو اس کے لیے خادمہ کا بندوبست کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تکلیف سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نہیں کہا کہ وہ ان کے لیے خادمہ کا بندوبست کریں یا کم از کم یومیہ اجرت پر کسی نوکرانی کو رکھ لیں جو یہ سارے کام کیا کرے۔
(2) تسبیح و تحمید میں بہت ثواب ہے۔ ممکن ہے کہ وظیفہ کرنے سے اللہ تعالیٰ ایسی طاقت پیدا کر دے کہ خادمہ کی ضرورت ہی نہ رہے اور خادمہ کی نسبت گھر کے کام سر انجام دینے زیادہ آسان ہو جائیں۔
(3) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر کی یہ حالت ہے تو دوسری عورتوں کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اپنے آپ کو خاندانی اور معزز خیال کر کے گھریلو کام کو اپنے لیے عار محسوس کریں اور انہیں بجا لانے میں ذلت محسوس کریں۔ واللہ أعلم