قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: صفات و شمائل

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَطْعِمَةِ (بَابُ التَّيَمُّنِ فِي الأَكْلِ وَغَيْرِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: قَالَ عُمَرُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ ﷺ: «كُلْ بِيَمِينِكَ»

5381. حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ: لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا، أَعْرِفُ فِيهِ الجُوعَ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ؟ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا، فَلَفَّتِ الخُبْزَ بِبَعْضِهِ، ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ ثَوْبِي، وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي المَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟» فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «بِطَعَامٍ؟» قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ: «قُومُوا» فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ، فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا مِنَ الطَّعَامِ مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ أَبُو طَلْحَةَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دَخَلاَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، مَا عِنْدَكِ» فَأَتَتْ بِذَلِكَ الخُبْزِ، فَأَمَرَ بِهِ فَفُتَّ، وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً لَهَا فَأَدَمَتْهُ، ثُمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ قَالَ: «ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ» فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: «ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ» فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ قَالَ: «ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ» فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا، ثُمَّ أَذِنَ لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ القَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا، وَالقَوْمُ ثَمَانُونَ رَجُلًا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

عمر بن ابی سلمہ ؓنے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ داہنے ہاتھ سے کھا ۔

5381.

سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ سیدنا ابو طلحہ ؓ نے سیدنا ام سلیم ؓ سے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی آواز میں نقاہت محسوس کرتا ہوں۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ فاقے سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ چنانچہ انہوں نے جوکی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنا دوپٹہ لیا اور اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹ دی، پھراسے میرے کپڑے کے نیچے میرى بغل میں چھپا دیا اور اس کا کچھ حصہ (چادر کی طرح) مجھے اوڑھا دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا۔ جب وہ لے کر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ مسجد میں تشریف فرما تھے اور آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓم بھی تھے۔ میں ان حضرات کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”کیا تجھے ابو طلحہ نے بھیجا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”کھانے کے لیے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے اپنے سب ساتھیوں سے فرمایا: ”اٹھو۔“ چنانچہ آپ وہاں سے روانہ ہوئے اور میں ان کے آگے چلنے لگا۔ جب میں سیدنا ابو طلحہ ؓ کے پاس پہنچا تو انہوں نے سیدہ ام سلیم ؓ سے کہا: ام سلیم! رسول اللہ ﷺ اپنے ساتھیوں سمیت تشریف لا رہے ہیں جبکہ ہمارے پاس کھانے کا اتنا انتظام نہیں جو سب کو کافی ہو سکے۔ سیدہ ام سلیم ؓ نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں اس کے بعد سیدنا ابو طلحہ ؓ استقبال کے لیے نکلے اور رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی۔ آخر کار ابو طلحہ ؓ اور رسول اللہ ﷺ چلتے چلتے گھر میں داخل ہو گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدہ ام سلیم ؓ سے فرمایا: ”اے ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے لے آؤ۔“ چنانچہ وہ وہی روٹیاں لے آئیں پھر آپ ﷺ کے حکم سے ان کا چورا کر لیا گیا۔ سیدہ ام سلیم ؓ نے اپنے گھی کے ڈبے سے اس پر گھی نچوڑ کر اس کا ملیدہ بنالیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی توفیق سے اس پر جو پڑھنا تھا پڑھا، اس کے بعد فرمایا: ”دس دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلاؤ۔“ چنانچہ صحابہ کرام ؓ کو اجازت دی وہ آئے اور شکم سیر ہو کر کھایا اور واپس چلے گئے۔ پھر آپ نے فرمایا: ”دس اور بلاؤ۔“ وہ آئے اور شکم سیر ہو کر کھایا اور باہر چلے گئے، پھر آپ نے دس صحابہ کرام ؓ کو آنے کی دعوت دی۔ انہوں نے بھی سیر ہو کر کھایا اور واپس چلے گئے۔ پھر دس صحابہ کرام ؓ کو بلایا، اس طرح تمام صحابہ کرام ؓ نے پیٹ بھر کر کھایا۔ اس وقت اسّی (80) کی تعداد میں صحابہ کرام ؓ میں موجود تھے۔