تشریح:
(1) ابن بطال نے کہا ہے کہ اس حدیث سے پیٹ بھر کر کھانا ثابت ہوتا ہے اگرچہ کبھی کبھار بھوک برداشت کرنا افضل ہے۔ بہرحال پیٹ بھر کر کھانا اگرچہ مباح ہے لیکن اس کی ایک حد ہے، جب اس حد سے تجاوز ہو تو اسراف و فضول خرچی ہو گی۔ صرف اس حد تک کھائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مددگار ثابت ہو اور اس سے جسم بوجھل نہ ہو جو اللہ کی عبادت سے رکاوٹ کا باعث بنے۔ (فتح الباري: 654/9)
(2) ہمارے رجحان کے مطابق پیٹ بھر کے کھانے کی حد یہ ہے کہ پیٹ کے تین حصے ہوں: ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک سانس کی آمد و رفت کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ اگر یہ معمول بنا لیا جائے تو انسان توانا و تندرست رہے گا۔