تشریح:
(1) شکم سیری، یعنی پیٹ بھر کے کھانے کا یہ سلسلہ فتح خیبر کے بعد شروع ہوا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو ہم نے (دل میں) کہا: اب ہم کھجوریں پیٹ بھر کے کھائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین سال پہلے خیبر فتح ہوا تھا۔
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے پیٹ بھر کے کھانا کھانے کے سات مراتب بیان کیے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ اتنا کھائے جس سے جسم اور روح کا رشتہ قائم رہے۔ ٭ پھر اس پر کچھ اضافہ کرے تاکہ نماز روزے کی ادائیگی آسان ہو۔ ٭ اس کے بعد مزید کھائے تاکہ نوافل ادا کیے جا سکیں۔ ٭ اپنی خوراک میں اتنا اضافہ کرے کہ کمائی کے قابل ہو جائے۔ ٭ ایک تہائی پیٹ بھرے ایسا کرنا بھی جائز ہے۔ ٭ اتنا کھائے کہ جسم بوجھل اور نیند کا غلبہ ہو جائے، اس طرح پیٹ بھرنا مکروہ ہے۔ ٭ اس پر مزید اضافہ کرے حتی کہ معدے پر بوجھ پڑے اور انسان بیمار ہو جائے۔ اس قسم کا پیٹ بھر کر کھانا منع ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ (فتح الباري: 655/9)
(3) بہرحال ان احادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے پیٹ بھر کے کھانا کھانے کا جواز ثابت کیا ہے۔ واللہ أعلم