تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانۂ بعثت سے پہلے تو شام کے علاقوں کا سفر کیا جہاں بہت خوشحالی تھی اور میدے کی روٹی بھی وہاں بکثرت دستیاب تھی اور چھانیناں بھی ہوتی تھیں لیکن بعثت کے بعد آپ مکے، طائف اور مدینے کے علاوہ اور کہیں نہیں گئے۔ آپ نے تبوک کا سفر کیا ہے جو شام کے قریب تھا۔ وہاں بھی چند دن پڑاؤ کیا اور واپس آ گئے۔ ان علاقوں میں نہ چھانیناں موجود تھیں اور نہ آٹا ہی ملتا تھا۔ بہرحال حضرت سہل رضی اللہ عنہ کے بقول جو کے آٹے میں پھونک مارتے، اس سے جو اڑنا ہوتا وہ اڑ جاتا، باقی ماندہ آٹے کو بطور ستو استعمال کرتے یا گوندھ کر روٹی پکا لیتے۔ ان حضرات کی یہی خوراک تھی۔ بہرحال آج کل بھی سادہ زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ اس میں دین و دنیا دونوں کا بھلا اور خیروبرکت ہے۔ واللہ أعلم