قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الأَطْعِمَةِ (بَابُ مَا كَانَ السَّلَفُ يَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِهِمْ وَأَسْفَارِهِمْ، مِنَ الطَّعَامِ وَاللَّحْمِ وَغَيْرِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَتْ عَائِشَةُ، وَأَسْمَاءُ: «صَنَعْنَا لِلنَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ سُفْرَةً»

5423. حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: أَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُؤْكَلَ لُحُومُ الأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلاَثٍ؟ قَالَتْ: «مَا فَعَلَهُ إِلَّا فِي عَامٍ جَاعَ النَّاسُ فِيهِ، فَأَرَادَ أَنْ يُطْعِمَ الغَنِيُّ الفَقِيرَ، وَإِنْ كُنَّا لَنَرْفَعُ الكُرَاعَ، فَنَأْكُلُهُ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ» قِيلَ: مَا اضْطَرَّكُمْ إِلَيْهِ؟ فَضَحِكَتْ، قَالَتْ: «مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأْدُومٍ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ»، وَقَالَ ابْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ، بِهَذَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور حضرت عائشہ اور حضرت اسماءؓ کہتی ہیں کہ ہم نے نبی کریم ﷺاور حضرت ابوبکر ؓکے لیے ( مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے سفر ہجرت کے لیے ) توشہ تیار کیاتھا ( جسے ایک دسترخوان میں باندھ دیا گیا تھا )تشریح : ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کی بیٹی ہیں۔ ان کی ماں کا نام ام رومان زینب ہے جن کا سلسلہ نسب نبوی میں کنانہ سے جا ملتا ہے ۔ حضرت ابو بکرؓ کا نام عبداللہ بن عثمان ہے۔ رجال میں سب سے پہلے یہی اسلام لائے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کا نکاح رسول کریم ﷺ سے شوال سنہ 10 نبوی میں مکہ مکرمہ میں ہوا اور رخصتی شوال سنہ 1 ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی۔ یہی وہ خاتون عظمیٰ ہیں جن کی اسلامی خون سے ولادت اور اسلامی شیر سے پرورش ہوئی۔ یہی وہ طیبہ خاتون ہیں جن کا پہلا نکاح صرف رسول کریم ﷺ سے ہی ہوا۔ ان کے فضائل سیر واحادیث میں وارد ہوئے ہیں۔ علم وفضل وتدین وتقویٰ وسخاوت میں بھی یہ بے نظیر مقام رکھتی تھیں۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک دن میں حضرت عائشہ ؓ نے ستر ہزار درہم راہ اللہ میں تقسیم فرما دیئے ، خود ان کے جسم پر پیوند لگا ہوا کرتا تھا۔ ایک اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک لاکھ درہم ان کی خدمت میں بھیجے۔ انہوں نے سب اسی روز راہ اللہ صدقہ کر دیئے ۔ اس دن آپ روزہ سے تھیں۔ شام کو لونڈی نے سوکھی روٹی سامنے رکھ دی اور یہ بھی کہا کہ اگر آپ سالن کے لیے کچھ درہم بچالیتیں تو میں سالن تیار کرلیتی۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ مجھے تو خیال نہ رہا، تجھے یاد دلادینا تھا۔ علامہ ابن تیمیہ  نے حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ ؓ کے فضائل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ہر دو میں الگ الگ ایسی ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی بنا پر ہم دونوں ہی کو بہت اعلیٰ وافضل یقین رکھتے ہیں۔ کتب احادیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے دو ہزار دو سو دس احادیث مروی ہیں جن میں174 احادیث متفق علیہ ہیں اور صرف بخاری شریف میں 54 اور صرف مسلم میں 67 اور دیگر کتب احادیث میں 2017 احادیث مروی ہیں۔ فتاویٰ شرعیہ اور حل مشکلات علمیہ اور بیان روایات عربیہ اور واقعات تاریخیہ کا شمار ان کے علاوہ ہے۔ حضرت عائشہؓ نے جنگ جمل میں شرکت کی۔ آپ اس میں ایک اونٹ کے ہودج میں سوار تھیں، اسی لیے یہ جنگ جمل کے نام سے مشہور ہوئی۔ مقابلہ حضرت علی ؓ سے تھا ۔ جنگ کے خاتمہ پر حضرت صدیقہ ؓ نے فرمایا تھا کہ میری اور حضرت علی ؓ کی شکر رنجی ایسی ہی ہے جیسے عموماً بھاوج اور دیور میں ہو جایا کرتی ہے۔ حضرت علی ؓنے فرمایا اللہ کی قسم ! یہی بات ہے ۔ علامہ ابن حزم اور علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ فریقین میں سے کوئی بھی آغاز جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا مگر چند شریروں نے جو قتل عثمانی میں ملوث تھے، اس طرح جنگ کرادی کہ رات کو اصحاب جمل کے لشکر پر چھا پہ مارا۔ وہ سمجھے کہ یہ فعل بحکم وبعلم حضرت علی ؓ ہوا ہے ۔ انہوں نے بھی مدافعت میں حملہ کیا اور جنگ برپا ہو گئی ۔ علامہ ابن حزم مزید لکھتے ہیں کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ اور حضرت زبیر ؓاور حضرت طلحہ ؓ اور ان کے جملہ رفقاءنے امامت علی ؓ کے بطلان یا جرح میں ایک لفظ بھی نہیں کہا نہ انہوں نے نقص بیعت کیا نہ کسی دوسرے کی بیعت کی نہ اپنے لیے کوئی دعویٰ کیا۔ یہ جملہ وجوہ یقین دلاتے ہیں کہ یہ جنگ صرف اتفاقی حادثہ تھا جس کا ہر دو جانب کسی کو خیال بھی نہ تھا ( کتاب الفضل فی المال جزءچہارم ، ص : 158 مطبوعہ مصر سنہ 1317ھ ) اس جنگ کے بانی خود قاتلین حضرت عثمان ؓ تھے جو در پردہ یہودی تھے۔ جنہوں نے مسلمانوں کو تباہ کرنے کا منصوبہ بناکر بعد میں قصاص عثمان ؓ ہ کا نام لے کر اور حضرت عائشہ صدیقہ کو بہکا پھسلا کر اپنے ساتھ ملاکر حضرت علیؓ کے خلاف علم بغاوت بلند کیاتھا۔ یہ واقعہ 15 جمادی الثانی سنہ36 ھ کو پیش آیا تھا۔ لڑائی صبح سے تیسرے پہر تک رہی۔ حضرت زبیر ؓ آغاز جنگ سے پہلے ہی صف سے الگ ہو گئے تھے۔ حضرت طلحہ ؓ شہید ہوئے مگر جان بحق ہونے سے پیشتر انہوں نے بیعت مرتضوی کی تجدید حضرت علی ؓ کے ایک افسر کے ہاتھ پر کی تھی ( ؓ)

5423.

سیدنا عابس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا نبی ﷺ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک کھانے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا: صرف ایک سال منع تھا جس سال لوگ (قحط کے سبب) بھوکے تھے۔ آپ ﷺ نے ارادہ کیا کہ مال دار لوگ غریبوں کو گوشت کھلا دیں۔ ہم پائے رکھ لیتے تھے اور انہیں پندرہ دن کے بعد کھاتے تھے ان سے دریافت کیا گیا ایسا کرنے میں کیا مجبوری تھی؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سوال پر ہنس پڑیں اور فرمایا کہ سیدنا محمد ﷺ کی آل اولاد نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی مسلسل تین دن تک کبھی نہیں کھائی تھی حتیٰ کہ آپ اللہ تعالٰی سے جا ملے۔ ابن کثیر نے کہا: ہمیں سفیان نے بتایا کہ ان سے عبدالرحمن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی۔