تشریح:
مذکورہ حدیث میں نماز عصر کے بارے جو کچھ بیان ہوا، یہ اس صورت میں ممکن ہے جب نماز عصر کو ایک مثل سایہ ہونے پر ادا کرلیا جائے، چنانچہ امام نوی ؒ لکھتے ہیں: اس حدیث سے مقصود نماز عصر کو اول وقت میں جلد ادا کرنا ہے، کیونکہ دیر سے نماز پڑھنے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ دوتین میل سفر کیا جائے اور دھوپ کی تپش ابھی جوں کی توں باقی ہو۔ اس حدیث سے امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ؒ کے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے توعصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک جب تک کسی چیز کا سایہ دو مثل نہ ہوجائے نماز عصر کا وقت شروع نہیں ہوتا۔ یہ حدیث ان کے خلاف ہے۔ (شرح النووي:5/171 ،172)
(2) نماز ظہر کو''أولی'' پہلی نماز اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دن کی پہلی نماز ہے، نیز جب حضرت جبرائیل ؑ نے نمازوں کے اوقات کے تعین کے لیے امامت کے فرائض سرانجام دیے تھے تو سب سے پہلے ظہر کی نماز ادا کی تھی۔ (فتح الباري:37/2) نماز عشاء کو"عتمة" اس لیے کہا جاتا تھا کہ اسے تاخیر سے پڑھا جاتا تھا، کیونکہ عتمة رات کے اس حصے کوکہتے ہیں جو شفق وغیرہ کے غائب ہونے کے بعد شروع ہو، یعنی اندھیرا اچھی طرح چھا جاتا تو اسے ادا کیا جاتا۔ علامہ طیبی ؒ فرماتے ہیں:نماز ظہر کےلیے"أولی" کے الفاظ اس بات کی نشاندہی کے لیے ہیں کہ اسے اول وقت ہی ادا کرنا چاہیے تاکہ ان معانی سے موافقت ہوجائے۔ (شرح الکرماني:194/4)
(3)حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں ہے کہ نماز فجر سے فراغت کے بعد اندھیرے کی وجہ سے عورتوں کو شناخت کرنا ناممکن ہوتا تھا۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث: 578) یہ حدیث مذکورہ حدیث سے متعارض نہیں ہے، کیونکہ جب پاس بیٹھے ہوئے آدمی کو بمشکل پہچانا جاتا تھا تو عورتوں کو جو دور اور چادروں میں لپٹی ہوتیں، پہچاننا واقعی ناممکن تھا۔ والله أعلم.