تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے کھاتے تھے۔ (فتح الباري: 769/9) لیکن حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ٹڈی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’یہ اللہ کے بہت بڑے بڑے لشکروں میں سے ہے، نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ حرام ٹھہراتا ہوں۔‘‘ (سنن أبي داود، الأطمعة، حدیث: 3813) لیکن اس کی سند ضعیف ہے اور امام ابو داود رحمہ اللہ نے اس کے مرسل ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسے ایک روایت میں سمندر کا شکار کہا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حج یا عمرے کے سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلے تو ہمارا ٹڈی دل سے سامنا ہوا۔ ہم نے انہیں اپنی جوتیوں اور لاٹھیوں سے مارنا شروع کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے کھاؤ، یہ تو سمندر کا شکار ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الصید، حدیث: 3222) لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 768/9)
(2) امام نووی رحمہ اللہ نے اس کے حلال ہونے پر اجماع نقل کیا ہے، البتہ امام ابن العربی نے حجاز اور اندلس کی ٹڈی کے متعلق تفصیل بیان کی ہے کہ اندلس میں پائی جانے والی ٹڈی زہریلی اور نقصان دہ ہے، لہذا اسے نہ کھایا جائے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو اسے حلال ہونے سے مستثنیٰ قرار دینا قرین قیاس ہے۔ (فتح الباري: 769/9)