تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس کا حکم ایک ہے کہ متاثرہ گھی پھینک دیا جائے اور باقی کھا لیا جائے۔ اسی طرح امام زہری رحمہ اللہ بھی جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں فرق نہیں کرتے، نیز ان کے نزدیک گھی اور غیر گھی میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔
(2) حدیث میں اگرچہ گھی کا ذکر ہے لیکن تیل وغیرہ کو اس پر قیاس کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی میں فرق کیا گیا ہے، الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب گھی میں چوہیا گر جائے تو اگر وہ جما ہوا ہو تو چوہیا اور اس کے ارد گرد کے گھی کو پھینک دو اور اگر پگھلا ہوا ہو تو اس کے قریب نہ جاؤ۔‘‘ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3842) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے جیسا کہ ان کی بیان کردہ احادیث کے سیاق سے ظاہر ہوتا ہے۔ اکثر محدثین نے گھی یا تیل، چاہے پگھلا ہوا ہو، اس میں ارد گرد سے سارا متاثرہ تیل نکال کر باقی استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ آج کل باہر سے کھانے والے تیل برآمد کیے جاتے ہیں۔ ان جہازوں میں چوہے وغیرہ مستقل طور پر رہائش پذیر رہتے ہیں۔ اگر بھرے ہوئے جہاز میں ایک چوہا گرنے سے سارا تیل ضائع کرنا پڑے تو یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اس بنا پر امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف وزنی معلوم ہوتا ہے کہ جمے ہوئے اور پگھلے ہوئے گھی کا فرق نہ کیا جائے۔ کسی حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آس پاس کا گھی کتنی دور تک نکالا جائے، یہ ہر آدمی کی صوابدید پر موقوف ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اگر گھر جما ہوا نہ ہو تو تین چلو نکالے جائیں (مجمع الزوائد: 287/1، رقم: 1591) لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 828/9)