تشریح:
(1) ان تمام احادیث میں کسی نہ کسی حوالے سے دودھ کا ذکر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ احادیث اس موقف کی تردید کے لیے پیش کی ہیں کہ زیادہ دودھ پینے سے نشہ آ جاتا ہے، لہذا اسے زیادہ نہیں پینا چاہیے، لیکن اس موقف کی کوئی بنیاد نہیں ہے کیونکہ دودھ کا پینا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ثابت ہے۔ اگر کسی کو زیادہ دودھ پینے سے نشہ آ جاتا ہے تو اسے اپنے مزاج کی اصلاح کرنی چاہیے، اس میں دودھ کا کوئی قصور نہیں، یا پھر دودھ کو کسی دوسری چیز کے ساتھ ملا کر نقصان دہ بنایا جاتا ہے، چنانچہ ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے شراب کے متعلق سوال کیا، یعنی فلاں علاقے والے فلاں فلاں چیز سے شراب کشید کرتے ہیں۔ اس نے پانچ قسم کی مرکب شرابوں کا ذکر کیا۔ ان میں سے مجھے وہی شراب یاد ہے جو شہد، جو اور دودھ سے تیار کی جاتی تھی۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں اس وقت سے بہت پریشان تھا کہ میں دودھ کے متعلق دوسروں کو بتاؤں حتی کہ مجھے دودھ سے تیار کردہ ایسی شراب کا علم ہوا جس کے استعمال سے انسان فورا بے ہوش ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري: 89/10)
(2) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ آخری حدیث میں ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین پیالے پیش کیے گئے جن میں ایک دودھ کا، دوسرا شہد کا اور تیسرا شراب کا تھا۔ شراب کو پسند نہ کرنے کی وجہ حدیث میں بیان ہوئی ہے لیکن شہد کو آپ نے کیوں پسند نہ کیا، حالانکہ دیگر احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آپ کو شہد اور میٹھی چیز بہت مرغوب تھی، شاید اس میں یہ راز ہو کہ دودھ زیادہ منفعت بخش ہوتا ہے۔ اس سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور گوشت پیدا ہوتا ہے۔ اس کا مجرد استعمال قوت کا باعث ہے۔ اس کا استعمال کسی طور پر بھی دائرۂ اسراف میں نہیں آتا۔ شہد اگرچہ حلال ہے لیکن اس کا استعمال لذات دنیا کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اس میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین پیالے پیش کیے گئے تو آپ کو پیاس لگی تھی، اس لیے آپ نے دودھ کا انتخاب کیا کہ اس سے پیاس بجھ سکتی تھی جبکہ شراب اور شہد سے یہ کام پورا نہ ہو سکتا تھا۔ (فتح الباري: 93/10) واللہ أعلم۔
(3) واضح رہے کہ ایک حدیث میں دو پیالے پیش کرنے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، الأشربة، حدیث: 5576) لیکن ان میں کوئی منافات نہیں کیونکہ دو پیالے مقام ایلیاء میں پیش کیے گئے تھے جبکہ آپ اس وقت بیت المقدس میں تھے اور تین پیالے سدرۃ المنتہیٰ پر پیش کیے گئے تھے۔ واللہ أعلم