تشریح:
(1) اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آپ کو میٹھی چیز کی بہت خواہش تھی، اگر نہ ملتی تو بے چین ہو جاتے یا خصوصی طور پر اس کا اہتمام کراتے جیسا کہ مال دار لوگوں کا رویہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کبھی میٹھی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی جاتی تو بڑے شوق سے اسے تناول فرماتے۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لذیذ اور عمدہ چیز کا اہتمام کرنا معیوب امر نہیں ہے اور یہ زہد و تقویٰ کے منافی نہیں، خاص کر جب اتفاقیہ طور پر مل جائے۔ واللہ أعلم۔ (فتح الباري: 101/10) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہد کھاتے بھی تھے اور پانی میں ملا کر بطور مشروب بھی استعمال کرتے تھے۔ انسان حسب ضرورت اور حسب خواہش اسے استعمال کر سکتا ہے۔