تشریح:
(1) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد اس حدیث سے یہ ہے کہ تیمارداری کرنے والوں کو مریض کے پاس بیٹھ کر ایسی باتوں سے گریز کرنا چاہیے جس سے وہ غمگین ہو اور نوبت یہاں تک آ پہنچے کہ وہ انہیں اپنے پاس سے اٹھ جانے کا کہہ دے۔
(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس موقع پر کچھ آداب عیادت تحریر کیے ہیں کہ پہلے تو تیمارداری کرنے والے کو اجازت لینی چاہیے اور اجازت لیتے وقت بالکل دروازے کے سامنے کھڑا نہ ہو بلکہ آرام اور سکون سے دروازہ کھٹکھٹائے یا گھنٹی بجائے، پھر صاف الفاظ میں اپنا تعارف کرائے۔ ایسے وقت میں عیادت نہ کرے جب مریض دوا استعمال کر رہا ہو۔ عیادت میں کم از کم وقت لگایا جائے۔ اس دوران میں اپنی نگاہ نیچے رکھے۔ سوالات کم کرے۔ مریض سے محبت و ہمدردی سے پیش آئے۔ اسے صحت کی امید دلائے اور صبر و شکر کے فضائل سے اسے آگاہ کرے۔ مریض کے لیے صدق دل سے دعا کرے۔ واویلا کرنے، رونے پیٹنے، چیخنے چلانے اور گھبرانے سے باز رہنے کی تلقین کرے۔ (فتح الباري: 157/10)