باب: اس کے بارے میں جس نے مغرب کو عشاء کہنا مکروہ جانا
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Whoever disliked to call the Maghrib prayer as the 'Isha' prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
570.
حضرت عبداللہ مزنی ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری مغرب کی نماز کے نام پر بادیہ نشین غالب نہ آ جائیں (کیونکہ یہ دیہاتی نماز مغرب کو عشاء کے نام سے یاد کرتے ہیں)۔‘‘
تشریح:
(1) دیہاتی لوگ نام رکھنے میں برعکس طریقہ اختیار کرتے تھے۔ وہ مغرب کو عشاء کا نام دیتے جبکہ مغرب سے غروب کا اول وقت مراد ہوتا ہے اور عشاء رات کے ابتدائی اندھیرے کو کہتے ہیں جو شفق کے غائب ہونے سے شروع ہوتا ہے، یعنی اول وقت کو آخر وقت کا نام دے دینا، بڑے مغالطے میں ڈال دیتا ہے، اس لیے شریعت نے اس کی اصلاح فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مغرب پر عشاء کا اطلاق کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ اگر مغرب پر عشاء کا طلاق کیا جائے تو اندیشہ ہے کہ مغرب کا اول وقت شفق کا غائب ہونا قرار دے دیا جائے۔ یہ اس لیے بھی منع ہے کہ اس کے دو نقصان حسب ذیل ہیں:٭اسلامی زبان کی حفاطت نہ ہو سکے گی۔٭احکام میں التباس ہوگا، حالانکہ دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔ اگر احکام میں التباس نہ ہو اور دیہاتی زبان کے غلبے کا بھی اندیشہ نہ ہو تو منع نہیں ہوگا۔ جیسا کہ مغرب نماز عشاء اولیٰ اور عشاء کوالآخرة کہا جائے یا تغلیب کے طور پر دونوں کو عشاءين کہہ دیا جائے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ احکام شرعیہ کےبیان میں شرعی اصطلاحات کی پابندی کی جائے۔ مغرب کو مغرب ہی کے نام سے یاد کیاجائے، لفظ عشاء کا اس پر اطلاق نہ کیا جائے، کیونکہ ایسا کرنے سے اسلامی نام کے مقابلے میں جاہلیت کا نام فروغ پائے گا اور احکام شرعیہ کا بھی التباس ہوجائے گا۔ (فتح الباري:58/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
557
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
563
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
563
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
563
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ جس موقف کے متعلق جزم ووثوق نہیں رکھتے، اسےباب من کے اسلوب سے بیان کرتے ہیں جیسا کہ مذکورہ بالاعنوان کے متعلق انھوں نےانداز اختیار کیا ہے۔شاید انھوں نے اس عنوان کے تحت آنے والی حدیث کو مطلق نہی پر محمول نہ کیا ہو بلکہ غلبۂ اعراب سے بچنے کےلیےہو،حالانکہ الفاظ حدیث میں غلبۂ اعراب سے صاف نہی موجود ہے۔
حضرت عبداللہ مزنی ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری مغرب کی نماز کے نام پر بادیہ نشین غالب نہ آ جائیں (کیونکہ یہ دیہاتی نماز مغرب کو عشاء کے نام سے یاد کرتے ہیں)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) دیہاتی لوگ نام رکھنے میں برعکس طریقہ اختیار کرتے تھے۔ وہ مغرب کو عشاء کا نام دیتے جبکہ مغرب سے غروب کا اول وقت مراد ہوتا ہے اور عشاء رات کے ابتدائی اندھیرے کو کہتے ہیں جو شفق کے غائب ہونے سے شروع ہوتا ہے، یعنی اول وقت کو آخر وقت کا نام دے دینا، بڑے مغالطے میں ڈال دیتا ہے، اس لیے شریعت نے اس کی اصلاح فرمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے مغرب پر عشاء کا اطلاق کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ اگر مغرب پر عشاء کا طلاق کیا جائے تو اندیشہ ہے کہ مغرب کا اول وقت شفق کا غائب ہونا قرار دے دیا جائے۔ یہ اس لیے بھی منع ہے کہ اس کے دو نقصان حسب ذیل ہیں:٭اسلامی زبان کی حفاطت نہ ہو سکے گی۔٭احکام میں التباس ہوگا، حالانکہ دونوں کے احکام الگ الگ ہیں۔ اگر احکام میں التباس نہ ہو اور دیہاتی زبان کے غلبے کا بھی اندیشہ نہ ہو تو منع نہیں ہوگا۔ جیسا کہ مغرب نماز عشاء اولیٰ اور عشاء کوالآخرة کہا جائے یا تغلیب کے طور پر دونوں کو عشاءين کہہ دیا جائے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ احکام شرعیہ کےبیان میں شرعی اصطلاحات کی پابندی کی جائے۔ مغرب کو مغرب ہی کے نام سے یاد کیاجائے، لفظ عشاء کا اس پر اطلاق نہ کیا جائے، کیونکہ ایسا کرنے سے اسلامی نام کے مقابلے میں جاہلیت کا نام فروغ پائے گا اور احکام شرعیہ کا بھی التباس ہوجائے گا۔ (فتح الباري:58/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، جو عبداللہ بن عمرو ہیں، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے حسین بن ذکوان سے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے، کہا مجھ سے عبداللہ مزنی ؓ نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا، ایسا نہ ہو کہ ’’مغرب‘‘ کی نماز کے نام کے لیے اعراب (یعنی دیہاتی لوگوں) کا محاورہ تمہاری زبانوں پر چڑھ جائے۔ عبداللہ بن مغفل ؓ نے کہا یا خود آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ بدوی مغرب کو عشاء کہتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
بدوی لوگ نماز مغرب کو عشاء اور نماز عشاء کو عتمہ سے موسوم کرتے تھے۔ اس لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ بدویوں کی اصطلاح غالب نہ ہونی چاہيے۔ بلکہ ان کو مغرب اورعشاء ہی کے ناموں سے پکارا جائے۔ عتمہ وہ باقی دودھ جو اونٹنی کے تھن میں رہ جاتا اور تھوڑی رات گزرنے کے بعد اسے نکالتے۔ بعضوں نے کہا کہ عتمہ کے معنی رات کی تاریکی تک دیر کرنا چونکہ اس نماز عشاء کا یہی وقت ہے۔ اس لیے اسے عتمہ کہا گیا۔ بعض مواقع پر نماز عشاء کو صلوٰة عتمة سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے اسے درجہ جواز دیا گیا۔ مگربہتر یہی ہے کہ لفظ عشاء ہی سے یاد کیا جائے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ یہ ممانعت آپ نے اس خیال سے کی کہ عشاء کے معنی لغت میں تاریکی کے ہیں اوریہ شفق ڈوبنے کے بعد ہوتی ہے۔ پس اگر مغرب کا نام عشاء پڑجائے تواحتمال ہے کہ آئندہ لوگ مغرب کا وقت شفق ڈوبنے کے بعد سمجھنے لگیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah Al-Muzani (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Do not be influenced by bedouins regarding the name of your Maghrib prayer which is called 'Isha' by them."