تشریح:
(1) اس حدیث سے بذریعۂ داغ علاج ترک کرنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی پر خالص توکل کر کے اس قسم کا علاج نہ کرانا بہت بڑی عزیمت کی بات ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ پر خالص توکل کر کے جائز علاج کرانا توکل کے منافی نہیں، تاہم اس میں فضیلت نہیں۔
(2) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آگ سے داغنے کی دو قسمیں ہیں: ٭ صحیح تندرست آدمی خود کو آگ سے داغے تاکہ وہ بیمار نہ ہو۔ اس قسم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جس نے خود کو داغ دیا اس نے اللہ پر توکل نہیں کیا۔ ٭ زخمی کو آگ سے داغ دینا تاکہ وہ زخم آگے نہ بڑھے یا خراب نہ ہو۔ اس قسم کا داغ مشروع ہے۔ چونکہ اس سے شفا ضروری نہیں، اس لیے اس کا ترک کرنا باعث فضیلت ہے۔
(3) بہرحال جن احادیث میں اس طریقے علاج سے نہی وارد ہے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا جیسا کہ وضاحت گزر چکی ہے۔ صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک بوریا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھری تھی، (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2911) لیکن یہ مروجہ داغ دینے سے ایک الگ چیز ہے۔ (فتح الباري: 193/10) واللہ أعلم۔ اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب الرقاق میں ہو گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ