تشریح:
(1) بیماری، اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے مگر کوڑھی آدمی کے ساتھ میل ملاپ اس کا ایک سبب ہے، جب اللہ تعالیٰ اس میں اثر پیدا کر دے۔ اسبابِ بیماری سے پرہیز کرنا توکل کے منافی نہیں۔ کمزور عقیدہ رکھنے والوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجذوم آدمی سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو تاکہ اللہ کی تقدیر کے سبب بیماری لگ جانے سے ان کے عقیدے میں خرابی نہ آئے ایسا نہ ہو کہ وہ کہنے لگیں: یہ بیماری ہمیں فلاں آدمی سے لگی ہے۔ گویا یہ حکم عوام کے لیے ہے اور جس کا عقیدہ مضبوط ہو اسے جذامی کے ساتھ کھانے پینے اور ملنے جلنے کی اجازت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذامی آدمی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا اور فرمایا: ’’اللہ کا نام لے کر، اس پر اعتماد اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ۔‘‘ (جامع الترمذي، الأطعمة، حدیث: 1817) یہ روایت اگرچہ سنداً ضعیف ہے، تاہم صاحب ایمان و یقین کے لیے جائز ہے کہ وہ ایسے آدمی کے ساتھ مل کر کھانا کھائے لیکن ایسے مریض کو ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھنا چاہیے تاکہ اس کا دل نہ دکھے جیسا کہ روایت میں ہے: ’’جذام کے مریضوں کو ٹکٹکی باندھ کر مت دیکھو۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الطب، حدیث: 3543) (2) جزام کی بیماری والے شخص کو چاہیے کہ وہ عام لوگوں سے الگ رہے تاکہ دوسروں کو اس سے تکلیف نہ ہو، چنانچہ حدیث میں ہے کہ قبیلۂ ثقیف میں ایک مجذوم تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیغام بھیجا: ’’تم واپس چلے جاؤ۔ ہم نے تیری بیعت قبول کر لی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5822 (2231))