تشریح:
(1) حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کے پیش نظر بعض حضرات کا خیال ہے کہ نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا، کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں سو گئے اور اس کے بعد وضوکرنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے وہ اس انداز سے زمین پر جم کر بیٹھنے کی حالت میں سوئے ہوں کہ خروج ریح کا امکان نہ ہو یا وہ لیٹ کر سوئے ہوں، پھر بیدار ہونے کہ بعد وضو کرکے نماز میں شمولیت اختیار کی ہو۔ اگرچہ روایت میں وضو کرنے کا ذکر نہیں ہے، لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ وہ وضو کے بغیر نماز نہیں پڑھتے تھے۔ (فتح الباري:67/2)
(2) امام بخاری ؒ نے مذکورہ ہر دو روایات سے ثابت کیا ہے کہ نماز سے پہلے غیر اختیاری نیند مکروہ نہیں۔ اختیاری حالات میں نماز عشاء سے پہلے اس وقت سونا مکروہ ہے جب نماز کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ اگر کسی نے بیداری کا بندوبست کررکھا ہو تو اس کے لیے نماز سے پہلے سونا کسی صورت میں ناپسندیدہ نہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ نماز عشاء سے پہلے بعض اوقات سو جاتے اور اپنے اہل خانہ کو کہہ دیتے کہ مجھےنماز کے وقت بیدار کر دیا جائے۔ حدیث ابن عباس سے عنوان اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں تشریف لانے کے بعد سونے والوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ آپ کی طرف سے انتظار کرنے کی تعریف کی گئی۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرتے کرتے کچھ لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے، البتہ حضرت عثمان بن مظعون ؓ اور ان کے ساتھ تقریباً سولہ آدمی مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے منتطر تھے۔ (فتح الباري: 68/2)